Pages

Wednesday, December 08, 2021

Friday, April 17, 2020

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے باجماعت نماز محدود یا منسوخ کی جا سکتی ہے تحریر: محمد امین اکبر



کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے باجماعت نماز محدود یا منسوخ کی جا سکتی ہے
یا


ہنگامی حالات میں باجماعت نماز محدود یا منسوخ کی جا سکتی ہے
تحریر: محمد امین اکبر
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث  دنیا بھر کی حکومتوں نے مذہبی اجتماعات پر بھی  پابندی لگا دی ہے۔ سعودی حکومت نے  مسجد الحرام اور مسجد نبوی سمیت  تمام مساجد بند کر دی ہیں۔دوسرے بہت سے خلیجی ممالک نے بھی  مساجد میں نماز پڑھنے  اور دیگر اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔اُن ممالک میں چونکہ تمام مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں اس لیے  حکومت کے ایک بار  کہنے پر ہی  سب نے بغیر کسی حیل و حجت کے تمام مساجد بند کر دی  ہیں۔اس وقت مسئلہ پاکستان میں پیش آ رہا ہے ۔  پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کو اجتماعات سے روکنا ہے تاکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو کسی طرح روکا جا سکے۔حکومت اس  کے لیے دفعہ 144 بھی نافذ کر چکی ہے۔ لوگوں کے اجتماع کو روکنے کے لیے تقریباً تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اپنی مساجد میں باجماعت نماز کو ترک کرنے کو تیار نہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت جو حالات ہیں وہ عام حالات نہیں بلکہ  کورونا وائرس کی وبا کے باعث ہنگامی حالات ہیں۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ قران  کریم میں بیان کیے گئے اللہ تعالیٰ  کے احکام عام حالات کے لیے الگ اور  ہنگامی حالات کے لیے مختلف ہوتے  ہیں۔
علمائے کرام کا سب سے بڑا اعتراض ہے کہ  باجماعت نماز فرض ہے  اور فرض کو چھوڑا نہیں جا سکتا، اس کے علاوہ مسجدوں کو آباد کرنے کا حکم ہے اس لیے بھی باجماعت نماز چھوڑی نہیں جا سکتی۔اگر عام حالات ہوں تو علمائے کرام کی یہ  بات  بالکل درست ہے لیکن اس وقت عام حالات نہیں ہیں۔ جب ہنگامی حالات ہوں تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق  اسلام کا ہر فرض چھوڑا جا سکتا ہے۔ فرضیت میں نماز کا نمبر تو بعد میں آتا ہے ۔ اسلام میں جو فرض سب سے زیادہ اہم ہے وہ  اللہ پر ایمان ہے لیکن  ہنگامی حالات میں اس بنیادی عقیدے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کافی چھوٹ دی ہے۔ہنگامی حالات جیسے جان بچانے کے لیے اگر کسی صاحب ایمان کو کلمہ کفر بھی کہنا پڑے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں پکڑ نہیں ہے۔جس کا ثبوت قران کریم کی یہ آیت ہے۔
”جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا  “ (سورہ النحل 16 ، آیت 106)
روزہ  بھی صرف صحت مند شخص پر فرض ہے۔بیمار شخص رمضان کے روزے چھوڑ کر   اپنی تندرستی کے عرصے میں مکمل کرسکتا ہے ۔ حج اور زکواۃ تو فرض ہی صرف صاحب حیثیت لوگوں پر کی گئی ہے۔ جہاد کے  حوالے سے  بھی اللہ تعالیٰ نے طاقت اور کمزوری کے  حالات  کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو چھوٹ دی ہے۔جیسا کہ اس آیت میں فرمایا۔
”اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ اور اگر تم بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو کافروں پر غالب رہیں گے۔ اور اگر سو (ایسے) ہوں گے تو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اس لیے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے“ (سورہ الانفال 8 ، آیت 65)
حلال و حرام کھانے کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے قران میں چار با ر کہا ہے کہ انسان مجبوری  کے عالم میں سور کا گوشت، خون، مردار اور غیر اللہ کے نام پر پکا کھانا بھی کھا لے تو پکڑ نہیں ہوگی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نماز میں بھی چھوٹ دی ہے۔وضو کرنے کے لیے پانی نہ ہو تو  مٹی سے تیمم کیا جا سکتا ہے۔بیمار افراد نماز کو بیٹھ  کر، لیٹ کر یا اشاروں سے پڑھ سکتے ہیں۔ سفر میں نماز کو چلتے ہوئے یا سواری پر بھی پڑھا جا سکتا ہے، اسے  جمع  یا قصر کیا جا سکتا ہے۔قران کریم کے مطابق مسلمان سفر  میں خاص طور پر دشمن کے علاقے میں  نماز میں کمی کر سکتے ہیں۔
”اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں“(سورۃ النساء 4، آیت 101)
نبی کریم ﷺ   بھی کئی بار  معمولی وجوہات  جیسے بارش میں اذان کے ساتھ کہلوا دیتے تھے کہ  لوگ نمازاپنے مقام پر یعنی گھروں میں ہی  ادا کریں۔علماء فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جب  ظاہری دشمن سامنے  موجود ہو  تو آدھے لوگوں کو  پہرہ دینے اور بقیہ لوگوں کو باجماعت نماز کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے
اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے “ (سورہ النسا 4 ، آیت 102)
 اس پر عرض ہے کہ یہ حکم  صرف اس وقت تک کے لیے ہے جب تک جنگ شروع نہیں ہوتی۔ جب جنگ شروع ہو  جاتی ہے تو پھر  سب  مل کر  ہی دشمن  کامقابلہ کرتے ہیں۔کچھ ایسی ہی جنگ ہماری کورونا وائرس  کے خلاف بھی شروع ہو چکی ہے۔ جسے جیتنے کے لیے  فی الحال ہمارے پاس واحد حل سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔
کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں  نماز  کی ادائیگی کے حوالے سے ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم اب بھی تمام نمازیں پڑھ سکتے ہیں ۔ تاہم   باجماعت نماز کے لیے ہمارا طریقہ کار تھوڑا مختلف ہونا چاہیے تاکہ انجانے میں اس وائرس سے نہ تو ہم متاثر ہوں  اور نہ ہی دوسروں کو متاثر کریں۔ کیونکہ اس وقت کورونا وائرس کے جو تصدیق شدہ مریض سامنے آئے ہیں، اُن میں سے بہت سے لوگ مساجد میں  اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
کورونا وائرس کے بارے میں یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس کی علامات کئی دن بعد ظاہر ہوتی ہے اور اس وقت تک متاثرہ مریض بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی انجانے میں متاثر کر چکا ہوتا  ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے  پہلے سے مخصوص لوگوں کو ہی  مسجد میں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر کھڑے ہو کر  باجماعت نماز  ادا کرنی چاہیے ۔اس کے علاوہ  جس طرح اعتکاف میں چند لوگ مسجد کو دن رات آباد رکھتے ہیں، اسی طرح آج  کل بھی چند لوگوں کو مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنا چاہیے۔ یہ معتکف مساجد میں ذکر  اذکار بھی کریں اور باجماعت نماز کا اہتمام بھی کریں۔ اس طرح مساجد بھی آباد رہیں گی اور بیماری کے پھیلنے کا خدشہ بھی کم ہو جائے گا۔ اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کے دنوں میں ہمارے علماء کو لوگوں کو گھروںمیں  باجماعت نماز ادا کرنے کی  حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس طرح ایک محلے میں جہاں ایک جگہ یعنی مسجد میں  با جماعت نماز ہو سکتی ہے، اب ہر گھر میں ہو سکے گی۔
کہنے کو تو  ہمارے علمائے کرام انسانی جان کی حرمت کو کعبے سے زیادہ خیال کرتے ہیں اب جبکہ کروڑوں پاکستانی خطرے سے دوچار ہیں، علمائے کرام مساجد  میں باجماعت نماز کو ختم کرنے یا محدود کرنے پر بھی تیار  نہیں۔ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ دین میں آسانی ہے لیکن اس قدر آسان مسئلے کو پہاڑ بنا دیا گیا ہے۔ علمائے کرام کو سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ بھی آپ کو نمازوں کی ادائیگی گھر میں  کرنے کاکہہ رہے ہیں وہ بھی سب مسلمان اور صاحب ایمان ہیں۔ یاد  رہے کہ باجماعت  نماز کی ادائیگی حقوق اللہ ہے جبکہ عوام کی جان کو بچانا حقوق العباد میں شامل ہیں۔ اگر آپ باجماعت نماز کو محدود یا منسوخ  کرتے  ہیں تو یہ لوگوں کی خدمت ہو گی، جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا۔
 اردوپوائنٹ لنک


اپ ڈیٹ:
ایک حدیث میں پیاز کھا کر مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روکا گیا ہے کہ اس سے دیگر نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے میں  بیماری یا دیگر ہنگامی حالات میں بھی لوگوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔

Thursday, May 02, 2019

سورۃ النساء آیت 58 اور 59

سورۃ النساء آیت 58 اور 59
محمد امین اکبر
ایک پوسٹ پر سورۃ النساء کی آیت 59 پر اپنا موقف پیش کرنے کو کہا گیا ۔ جب اسے رف لکھنے لگا تو  بڑھ کرنوٹ کی شکل ہی اختیار کر گیا۔ اس لیے سوچا کہ اتنی محنت کو کمنٹ میں ہی پوسٹ نہ کروں  بلکہ الگ سے  بھی البم میں فوٹو کی شکل میں مستقبل کے ریفرنس کے  لیے رکھوں۔ 4:59 پر یہ تمام میری ذاتی رائے ہیں۔

ایک محترم نے 4:59 کے جس طرح حصے کیے ہیں اسی طرح اسے دیکھتے ہیں۔                                                                              
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ (پہلہ حصہ)
(اے ایمان والو اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے بیچ موجود اولی الامر کی) 
آیت کے مخاطب اہل ایمان ہیں۔اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کے لوگ بھی آ گئے اور اُن کے بعد ایمان داخل ہونے والے اور بعد کے زمانوں کے اہل ایمان بھی۔ وہ اہل ایمان بھی جو کسی اسلامی ریاست میں  رہتے ہیں اور وہ بھی کو کسی کافر ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں سب ہی کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ آیت کے اس حصے میں مختلف طرح کے اہل ایمان کیسے عمل کریں گے ۔
اسلامی حکومت میں رہنے والے:
اسلامی حکومت کی اطاعت تو ویسے ہی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہو گئ اور کسی نے اُس کی اطاعت نہ کی تو اس کو اطاعت کرانے کے لیے زبردستی کا اختیار ہے۔ویسے بھی کسی بھی طرز حکومت میں حکومت کی بات نہ ماننا بغاوت ہے۔ حکومت اپنی رٹ زبردستی قائم کر سکتی ہے۔
آگے أُولِي الْأَمْرِ سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد کوئی ایک ولی نہیں بلکہ بہت سے ولی ہے۔  سپاہی کے لیے کیپٹن ولی، کیپٹن کے لیے میجر اور میجر کے لیے کرنل سے ولی اور پھر ولیوں میں شمار ہونگے۔ اس لیے یہاں ولی کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر 4:59 سے پچھلی آیت دیکھیں تو پتہ چل جائے گا کہ اولیا کسے کہتے ہیں۔ اس سے پچھلی آیت میں  انہی اولیا کو مخاطب کیا گیا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا [٤:٥٨]
(خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے)

اس آیت میں خدا حکم دیتا ہے۔ کس کو حکم دے رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ۔ کیوں کہ  پہلے انہیں ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مخاطب ایسے تمام لوگ ہیں جو کسی بھی بات کر فیصلہ کرنے پر دور رسالت نبوی اور بعد میں مامور ہوئے ہیں۔ ان کو اللہ نصیحت کر رہا ہے کہ فیصلہ انصاف سے کرو۔کس کس بات کا فیصلہ ۔ ہر بات کا فیصلہ۔ یہاں امانتوں کے لین دین کے حوالے سے بات ہو رہی ہے کہ امانتیں اُن کے مالکوں تک پہنچا دو۔ اس کے بعد اگر جھگڑا ہو جائے کہ اس نے امانت میں خیانت کی ہے یا نہیں تو جس شخص نے فیصلہ کرنا ہے وہ انصاف کے ساتھ کرے۔اگر وہ دل میں انصاف کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے انصاف کی توفیق دے گا۔ اس کی مدد فرمائے گا۔اللہ سنتا اور دیکھتا ہے سے مراد انصاف کرنے والے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہیں۔
اس کے بعد آیت 59 میں مخاطب اہل ایمان ہو گئے۔اب انہیں اللہ کی اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے ، کس بات کی اطاعت کا؟ کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات مانو۔ ایک حکم کا ذکر پچھلی آیت میں مثال کے طور ہو گیا یعنی امانتیں واپس کر دینے کا۔ یعنی جو جو احکامات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیے ہیں اہل ایمان سب کومانو، چاہے حکومت اسلامی ہو یا نہیں۔
اس کے بعد کہا گیا کہ رسول کی اطاعت کرو اور أُولِي الْأَمْرِ کی۔ رسول کی اطاعت  تو رسول کے زمانے میں ہو گئ اور أُولِي الْأَمْرِ کی اطاعت ہر زمانے کے لیے ہیں۔ رسول کی اطاعت اسی زمانے میں ہونے کے ثبوت کے لیے 4:59 سے اگلی آیات دیکھیں۔ أُولِي الْأَمْرِ کی اطاعت ، تو  ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نامزدکیا اور بعد کے آنے والے تمام جج بھی اس میں شامل ہیں۔ کیوں اللہ تعالیٰ اس سے پہلی آیت میں اپنا حکم سب کو دے رہا ہے۔

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ : (دوسرا حصہ ) 
(پس اگر کسی معاملہ میں تمہارے بیچ تنازعہ پیدا ہو جائے تو ( "ان" شرطیہ ہے جس کا اطلاق آج کے قرآن پڑھنے والے پر بھی ہو گا ) غور طلب

بالکل ٹھیک ہے جناب، اس آیت کا ترجمہ وہی رہنے دیتے ہیں جو محترم دوست نے کیا ہے۔ اس آیت کر تعلق ہر وقت کے لیے ہے۔ اب تنازعہ کی صورت کیا ہو سکتی ہے۔ اوپر کی آیت میں دیکھ لیں۔ امانت کے حوالے دے دیکھ لیں، ایک کہے کہ امانت دے دی ہے ، دوسرا کہیں نہیں دی۔اسی طرح کسی بھی مسئلے پر تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے تو ہمیں  حکم دیا جا رہا ہے کہ عدالتوں کا رخ کریں۔یاد رہے کہ حاکموں یا  أُولِي الْأَمْرِ کے پاس اس صورت میں ہی جانا ہے جب واقعی تنازعہ ہو جائے ناحق عدالت میں لے جانا منع ہے۔
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ [٢:١٨٨]
(اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے )

فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ (تیسرا حصہ)
(پس لوٹو اسے (ہ کی ضمیر متنازعہ فیہ معاملہ کی طرف ہے) لیکر اللہ اور رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم الآخرت پر ایمان رکھتے ہو)
جی ہاں اسی معاملے کی بات ہو رہی ہے۔جس معاملے میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنازعہ کس قسم کا ہو گا۔عام سیدھا سادا معاملہ ہو تو تنازعے کی کیا ضرورت؟ گواہ بلاؤ، ثبوت دیکھو اور جو قصور وار ہو اسے سزا دی جائے۔ یہ تنازعہ خاص قسم کا ہے۔ اس تنازعے میں  نہ تو کوئی گواہ ہے نہ ثبوت۔دونوں ہی اپنی جگہ خود کو سچا سمجھتے ہوں۔ أُولِي الْأَمْرِ کے لیے فیصلے کی کوئی صورت نہ  تو اس تنازعے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے کا کہا جا رہا ہے۔رسول کی طرف لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں یہ تنازعہ ہوا ہو اور معاملہ کسی صاحب عدل کے پاس ہو تو وہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی بڑی عدالت کی طرف ریفر کر دے۔آج کے دور میں بھی معاملہ کا چھوٹی سے بڑی عدالت میں جائے گا۔ایک جج کی بجائے دو ججوں کی عدالت میں جائے گا۔اگر پھر بھی فیصلے کی کوئی صورت نہ نکلے تو اس فیصلے کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر جج یا أُولِي الْأَمْرِکمزور شہادت یا شک کی بنا پر کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کر دے تو بھی اُن کی بات ماننی چاہیے اور معاملہ اللہ کی طرف لوٹا دینا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا کیا ہے؟ قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی معاملہ ایسا ہے جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ یہ اللہ کی طرف لوٹانے کی مثال ہے۔ سورۃ نور کی ابتدائی آیات سے ہم معاملہ اللہ کی طرف لوٹانے کی مثال سمجھ سکتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ [٢٤:٦]
(اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے)
وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ [٢٤:٧]
(اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو )
وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ [٢٤:٨]
(اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے )
وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ [٢٤:٩]
(اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو )

اس کے علاوہ
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ [٣:٦١]
(یہ علم آ جانے کے بعد اب کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے محمدؐ! اس سے کہو، "آؤ ہم اور تم خود بھی آ جائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خد ا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو")
اس آیت میں حضرت عیسیٰ سے متعلق قرآن میں بتا دیا گیا ہے۔ اس باوجود اختلاف ہونے کی صورت میں معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جا رہا ہے۔

4:59 میں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کا ذکر ہے اس کا  مطلب ہے کہ جس چیز کا فیصلہ دنیا میں نہ ہو سکا اس کا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فیصلہ کرے گا۔ امانت وغیرہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل میں اس طرح کی صورت حال کیوں پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کا فیصلہ نہ ہو سکے اور معاملہ کو آخرت کی طرف لوٹانا پڑے۔ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کے ایک اور حکم کی اطاعت نہ کرنا ہے۔وہ حکم جس کی اطاعت نہیں کی جاتی وہ سورۃ البقرۃ کی آیت 282 میں ہے کہ
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو) [٢:٢٨٢]
 اگر فریقین اپنے پاس اس طرح کے ثبوت وغیرہ رکھیں تو  أُولِي الْأَمْرِ کو فیصلے کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو گی۔

سوال:آج کے دور میں اگر أُولِي الْأَمْرِ کے ساتھ کوئی تنازعہ ہوتا ہے میں اس معاملہ کو لیکر کس کے پاس جاؤں؟
جواب: آج کل آپ کے أُولِي الْأَمْرِنے جو سسٹم بنایا ہوا ہے آپ کو اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ کسی ادارے میں تنازعہ ہو جائے تو اس کے محتسب موجود ہیں۔ کسی عدالت کے فیصلے پر اعتراض (تنازعہ) ہے تو اس سے بڑی عدالتیں موجود ہیںَ ۔ دنیاوی أُولِي الْأَمْرِ میں سپریم کورٹ  سب سے بڑی عدالت ہے۔ اس کے فیصلے سے بھی تنازعہ حل نہیں ہوتا تو معاملہ کو اللہ پر ہی چھوڑ دینا بہتر ہے۔ اگر عدالتیں واضح ثبوتوں اور شہادتوں کے بعد آپ کے خلاف فیصلہ دے رہی ہے تو آپ کو اسے مان لینا چاہیے کہ  أُولِي الْأَمْرِ کی اطاعت کا حکم اسی آیت 4:59 میں ہے۔

ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا 4:59 (چوتھا حصہ )
یہ (حکومتی تشکیل کی ) بہترین توضیح و تشریح ہے۔(یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔)
درست طریقہ اس لحاظ سے ہے کہ قیامت پر یقین کی وجہ سے اصل اجر وہاں ملے گا۔مزید مقدمے بازی نہیں ہو گی۔
اس آیت کا تعلق اس وقت سے ہے جب معاملے کا فیصلے کرنے کے لیے واضح ثبوت نہ، ہو سکتا ہے صاحب عدل صلح کا کہہ دے تو اس کی بات ماننی چاہیے۔

غیر اسلامی ممالک میں 4:59 کا اطلاق
ایسے مسلمان جو غیر اسلامی  ممالک میں  رہتے ہیں وہ اس آیت 4:59 پر اس طرح سے عمل کریں گے کہ  اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت میں قرآن کریم کے احکامات پر عمل کریں گے۔ أُولِي الْأَمْرِ کی اطاعت کے ضمن میں وہاں کے جج اور قانون کا احترام کریں گے اور ان کے فیصلے کو قرآن  کے احکامات کی روشنی میں تسلیم کریں گے۔کوئی ایسا حکم نہیں مانیں گے جو سراسر کفر ہو جیسے کہ قرآن کریم میں ہے کہ
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ [٢٩:٨]
(ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔)
اسی طرح ایسے وہ احکام جو شرک کا باعث بنتے ہو اُن احکام کی پابندی لازم نہیں۔ لیکن اگر زبردستی کی جائے تو اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کفر کی بجائے ہجرت فرض ہے کہ کفر کا کوئی بہانہ قبول نہ ہو گا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا [٤:٩٧]
(جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے )
غیر اسلامی ممالک میں کسی حد تک اپنا ایمان چھپایا جا سکتا ہے  جیسا کہ اس آیت میں ہے۔
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا [٤:١٠١]
(اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں )
 مگر کفر پر عمل نہیں کرنا۔ عبادات اس حد تک ترک کی جاسکتی ہیں کہ  سب کے سامنے ادا نہ کی جائیں۔ سکارف وغیرہ کی پابندی ہو تو اس پابندی پر عمل کرنے پر بھی کوئی حرج نہیں۔ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے دیکھنا چاہیے کہ اس کے کرنے سے کفر تو نہیں ہو جائے۔ کفر نہ ہو تو کرنا جائز ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Wednesday, December 24, 2014

میری کرسمس


میری کرسمس

تحریر: محمد امین اکبر




دنیا کا ہر فرد کئی قسم کے تہوار مناتا ہے ۔مذہبی تہوارجو کسی بھی مذہب کے ماننے والے جہاں بھی ہوں مناتے ہیں۔ علاقائی تہوارجو مخصوص علاقوں تک محدود ہوتے ہیں۔اس طرح موسموں کے آنے جانےاور سال  کے بدلنے پر بھی ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے  خوش ہوتا۔کچھ تہواروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ علاقوں سے ہوتے ہوئے دنیا میں مقبول ہو جاتے ہیں، کچھ عقیدت کی وجہ سے مذہب کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی مذہب کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ عیسائیوں کے تہوار کرسمس کو عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی میں مناتے ہیں اور مذہبی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ شروع میں یہ تہوار اتنے جوش و خروش سے نہیں منایا جاتا تھا، مگر جب عیسائیت کے شروع ہونے کے چند سو سال بعد عیسائیت بہت سے ممالک کا سرکاری مذہب بن گیا تو اس تہوار نے بھی سرکاری سرپرستی میں پھلنا پھولنا شروع کر دیا۔اس تہوار پر عیسائی ایک دوسرےکو مبارک باداور تحفے تحائف دیتے ہیںِ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ تہوار تو عیسائیوں کا ہی ہے،  مگر تذبذب کی کیفیت وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں پوچھا جاتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان بھی کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارکباد دے سکتا ہے؟ تو اس کو سختی سے حرام قرار دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ عیسائی حضرات کو کرسمس کی مبارک باد دینا ایک ایسا  مسئلہ ہے جس پر اکثریتی علماء کا اجماع ہے کہ وہ ناجائز ہے ۔  جو لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں ان کے حوالہ جات میں دنیاوی معاشرت  اور اسلامی رواداری کا پہلو شامل ہوتا ہے۔اس حوالے سے قرآن پاک پڑھنے کے بعد میرا موقف یہ ہے کہ عیسائیوں کو اُن کی  خوشی کے مواقع پر،  جیسے شادی، سالگرہ، پیدائش،  میں شریک ہوا جا سکتا، اُن کوتہوار پر مبارکباد دیتے ہوئے میری کرسمس بھی کہا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک میں اس حوالے سے دیکھتے ہیں کیا بیان فرمایا گیا ہے۔

چند قرآنی آیات
سورہ روم کے شروع میں ذکر ہے کہ رومیوں (عیسائیوں) کی غیر مسلموں  کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی میں رومیوں کی شکست پر  اہل ایمان  کے دل غمگین اور چند سال بعد فتح پر خوش ہو گئے تھے، اس  خوشی اور غمی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ،کفار کے مقابلے میں، ان کی فتح پر خوش تھے۔اس وقت بھی عیسائیوں کے یہی عقائد تھے جو آج ہیں۔ اس وقت کے تمام عیسائی عقائد قرآن مجید میں تفصیل سے درج ہیں۔اس کے باوجود سورۃ روم کی آیات پڑھ کر لگتا ہے کہ اگر مسلمان اس جنگ کے موقع پر عیسائیوں کی مزید مدد کرنے کے قابل ہوتے تو جنگی مدد بھی ضرور کرتے۔
غُلِبَتِ الرُّومُ [٣٠:٢]
”روم مغلوب ہو گئے“
فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [٣٠:٣]
”نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے“

فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ [٣٠:٤]
”چند ہی سال میں پہلے اور پچھلے سب کا م الله کے ہاتھ میں ہیں اور اس دن مسلمان خوش ہوں گے“

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا [٤:٨٦]
”اور جب تمہیں کوئی دعا دے تو تم اس سے بہتر دعا دو یا الٹ کر ویسی ہی کہو بے شک الله ہر چیز کا حساب لینے والا ہے“
سورۃ النساء کی اس آیت میں لفظ بِتَحِيَّةٍ کا  استعمال کیا گیا ہے۔جو مبارکباد کے اور استقبالیہ کلمات ہیں ۔
أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا [٢٥:٧٥]
”یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا “
اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دعا دینے والا یا کلام کرنے والا مسلمان ہو تب ہی جواب دینا ہے۔
قرآن میں سورۃ المائدہ کی آیت 82 میں درج ہے کہ یہود اور ہنود کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ تو یہ کیسی دوستی ہے کہ ایک طرف وہ تہوار منا رہے ہوں اور ہم مبارکباد بھی نہ دے سکیں؟

قرآن کریم کے مطابق یہودی عیسائی صابی جو نیک عمل کرے گا جنت میں جائے گا [٥:٦٩] ۔جنت میں سب ایک دوسرےپر سلامتی بھیجیں گے[١٠:١٠] ۔ جب وہاں سلامتی بھیجی جا سکتی ہے تو یہاں ایک دوسرے کو مبارک باد کیوں نہیں دی جا سکتی؟ باقی یہ سوال کہ کون جنت میں جائے گا کسی کو معلوم نہیںِ اللہ تعالیٰ سے لکھوا کر کوئی نہیں لایا۔[٥:٦٩] میں تاقیامت تک کی بات ہو رہی ہے نہ کہ اُن عیسائیوں کی جو نبی کریم ﷺ سے پہلے گذر چکے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی قرآنی مجید میں بھی مشرک کے لیے جنت حرام ہونے کا لکھا ہے[٥:٧٢]۔ جو چاہے عیسائی ہو یا کسی اور مذہب کا۔

مبارکباد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے یا اللہ کے بیٹے کے لیے؟
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [٢:١٢٤]
”اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا کہا اور میری اولاد میں سے بھی فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا“
اس آیت کے مطابق ہم آل ابراہیم پر دورد بھیجتے ہیں اس کا تعلق آل ابراہیم کے برے لوگوں سے نہیں ہوتا۔ وہ صرف اچھے لوگوں پر جاتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم مبارک اللہ کے رسول کی پیدائش  کے لیے دیں اور اللہ اسے بیٹے کے لیے سمجھ کر ہمیں گناہ گار قرار دے ۔
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ [٣:٦٤]
”کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور سوائے الله کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں“
اس آیت کے مطابق اگر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان برابر کی بات دیکھیں تو وہ یہ ہے کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پیدا ہونے پر خوشی ہی منائی جاتی ہے۔
نجاشی نے سورۃ مریم کی پیدائش مسیح سے متعلق آیات سن کر کہا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان لکیر سے زیادہ فرق نہیں۔اس نے مسلمانوں اور عیسائیت کے درمیان برابر کی بات ہی دیکھی تھی جو پیدائش عیسیٰ علیہ السلام تھی نہ کہ اُنکا  نعوذ باللہ خدا کا بیٹا ہونا۔

معاشرت کا تقاضا
اسلام اپنے اندر جتنی رواداری دوسرے مذاہب کے لیے رکھتا ہے اتنی دنیا کا کوئی مذہب نہیں رکھتا۔ مگر ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رواداری صرف مذہبی عبادات کی اجازت دینے کی حد تک ہے اور بس۔قرآن کریم کے مطابق مسلمان  مرد کو  اہل کتاب عورت سے شادی  کی اجازت ہے(سورۃ المائدہ آیت 5) ، اسی وجہ سے بہت سے مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی بھی کرتے ہیں ۔ یاد رہے مسلمان مرد سے شادی شدہ اہل کتاب عورت پر اس کی عبادات کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔اب ذرا تصور کریں کتنی مضحکہ خیز صورتحال  ہو گی کہ کسی کی بیوی، جواس کی سب سے بڑی دوست ہوتی ہے،اس کی  شریک حیات،اس کا لباس، اس کا پردہ، اس کی راز دار(سورۃ البقرہ آیت 187) ، وہ اپنا تہوار منا رہی ہے، اپنی عبادت کر رہی ہے، تہوار کی خوشی میں اچھے اچھے کھانے پکا  رہی ہے ،مسلمان مرد پر یہ کھانے کھانا حلال ہے(سورۃ المائدہ آیت 5) مگر بیوی کو اس مذہبی یا رسمی تہوار کی مبارک باد دینا حلال نہیں۔ بہت سے لوگ جوان کے ملک میں رہتے ہیں ، اُن میں کھاتے ہیں، انہی کا سا لباس پہنتے ہیں، مگر ہر سال پھر پاکستانی مولوی سے ایک ہی بات کا فتویٰ طلب کرتے ہیں کہ  کرسمس کی مبارک باد دیں یا نادیں؟


ناجائز ہونے کے بارے میں دلائل

کرسمس کا مطلب اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا۔
ایک اعتراض تو یہ کیا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارک باد دیں گے تو آپ اس بات پر ایمان لے آئیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں(نعوذ باللہ)۔
 نہ جانے یہ غلط فہمی کہاں سے آ گئی کہ کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا(نعوذ باللہ) ہوتا ہے۔ ایسا کسی لغت میں نہیں لکھا ہوا۔مزیدیہ کہ جب صدر اوبامہ کسی مسلمان کو روزوں کی مبارک باد دیتا ہے تو کیا وہ ایمان لے آتا ہے کہ مسلمانوں کے روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی برحق حضرت محمد ﷺ پر فرض کیے گئے ۔ نہیں بلکہ وہ صرف اپنی عیسائی دنیا کی رواداری دکھا رہا ہوتا ہے۔کرسمس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے منسوب ایک تہوار ہے بس، کوئی اسے مذہبی عقیدت سےمناتا ہے تو کوئی بھرپور کاروباری جذبے سے اور کچھ چھٹیاں منانے کے لیے۔
اس حوالے سے قاری محمدحنیف ڈارصاحب کی ایک تحریر سے اقتباس:
” کیا ایسا ممکن ھے کہ وہ خدا سمجھتے رھیں اور ھم نبی سمجھ کر خوش ھو لیں،، جی ایسا بالکل ممکن ھے، قرآن حکیم میں ایک سورت ھے الصآفآت اس کی آیت نمبر 125 میں حضرت الیاس اپنی قوم کو کہہ رھے ھیں کہ تم بعل کو پکارتے ھو بچے مانگنے کے لئے اور احسن الخالقین کو بھول جاتے ھو،، یہ بعل نام کا بت تھا جس پر چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور بیٹے مانگے جاتے تھے،لنگ پوجا ٹائپ کی عبادات کی جاتی تھیں،، الغرض اس بت کی وجہ سے شوھر کو بھی " بعــل " مجازی خدا یعنی بیٹے دینے والا کہا جانے لگا ! اب یہی بعل کا لفظ حضرت سارا اپنے شوھر ابو الانبیاء حضرت ابراھیم کے لئے استعمال کرتی ھیں،، سورہ ھود کی آیت 72 میں وہ فرماتی ھیں کہ" اءلدُ و انا عجوزٓ و ھٰذا "بــعـــــلی "شیخاً ؟ کیا میں اب جنوں گی جبکہ میرا بعل بوڑھا پھونس ھو گیا ھے ؟ یہاں بعل شوھر کے معنوں میں استعمال ھوا ھے نہ کہ بت کے معنوں میں،، اسی طرح عیسی علیہ السلام کو وہ جو مرضی ھے سمجھیں ھم انہیں اللہ کا رسول سمجھ کر ان کی پیدائش کی مبارک دے سکتے ھیں !“

 نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ ایمان والے لوگوں کو کہیں کہ  ”راعنا“ نہ کہا کریں ”انظرنا“ کہا کریں [٢:١٠٤] ۔ اسی طرح اگر کسی کو لگتا ہے کہ میری کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا ہے(جو کہ نہیں ہے) تو اسے ہیپی برتھ ڈے ٹو عیسیٰ کہہ کر تصحیح کر دیں۔


سالگرہ کی مبارک صرف زندہ شخص کے لیے
سالگرہ پر ایک اعتراض یہ کہ، سالگرہ مبارک صرف زندہ شخص کو کہا جا سکتا ہے۔
اس اعتراض کا مطلب اس بات کا اقرار ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ سوائے چند جدت پسندوں کے تمام مسلمان ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ تسلیم کرتے ہیں۔

متفقہ اجماع
جہاں تک اس اجماع کی بات ہے کہ کافروں کو ان کے قومی شعائر پر مبارک باد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ ان کی عیدوں اور روزوں پر مبارک باد دینا حرام ہےاور غیرمسلموں کو شادی، بچے کی پیدائش وغیرہ پر مبارک باد دی جا سکتی ہے یا نہیں اس بارے اختلاف ہے۔
ا س بارے میں عرض ہےکہ پچھلی قوموں کے لیے خوشی کے موقعوں کا ذکر قرآن[٥:١١٤] میں بھی موجود ہے۔پچھلی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے روزے بھی فرض[٢:١٨٣] کیےتھے۔جب ہم پر اور پچھلی قوموں پر روزے اللہ تعالیٰ نے ہی فرض کیےتو روزوں پر مبارک باد دینا  کیوں حرام ہے؟
ایک طرف ہم یقین رکھتے ہیں کہ بچے تمام دین توحید پر پیدا ہوتے ہیں مگر اس بچے کی پیدائش کی مبارکباد دینے میں اختلاف  کیوں ہے ؟اب بچے کا تو کوئی قصور نہیں کہ وہ غیر مسلم کے گھر پیدا ہوا۔ یہی حال شادی کا ہے، شادی سے معاشرے کی بہت سی اخلاقی برائیاں ختم ہوتی ہے۔ مسلمان مردوں کو غیر مسلم عورتوں(اہل کتاب) سے شادی کی اجازت ہے مگر انہیں شادی کی مبارک باد ینے میں اختلاف  کیوں ہے؟


٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں: