Pages

Sunday, August 03, 2014

اسلامی حجاب(پردہ)






Islamic Hijab
By: Muhammad Ameen Akbar
اسلامی حجاب(پردہ)
تحریر: محمد امین اکبر






قرآن اور حدیث کی سچائی کے پیمانے








قرآن اور حدیث کی سچائی کے پیمانے
تحریر: محمد امین اکبر
 



قرآن : اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر 23 سال کے عرصے میں تھوڑی تھوڑی نازل کر کے مکمل کی۔
احادیث:نبی کریم ﷺ سے منسوب اقوال جو ہم تک مختلف راویوں کے ذریعے سے پہنچے۔
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس وقت کے کفار بھی اس کے من جانب اللہ ہونے پر اعتراضات کرتے تھے، اور آج 1400 سال بعد کے مستشرقین اور اسلام دشمن عناصر کو بھی قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے پر اعتراض ہے۔اللہ تعالیٰ نے کفار اور مستشرقین کے ان اعتراضات کا جواب قرآن میں شامل کر دیا ہے۔ اعتراضات کے ان جوابات کو شامل کرنے کی ایک بڑی وجہ صرف یہ تھی کہ اگر ایک ہزار سال کے بعد بھی کوئی غیر مسلم قرآن کریم کی حقانیت پر سوال اٹھائے تو اس کے اعتراضات کا جواب بھی اس میں موجود ہو ۔قرآن کے منجانب اللہ اور حق ہونے کی دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا [٤:٨٢]
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے “
اس آیت کے مطابق اگر قرآنی الہامی کی بجائے انسانی تصنیف ہوتی تو اس میں بیان کیے گئے حقائق میں تضاد ہوتے۔

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا [١٧:٨٨]
”کہہ دیجیئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل نا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وه (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں “
اس آیت میں تمام جنوں اور انسانوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ  اگر قرآن الہامی نہیں بلکہ انسانی کتاب ہے تو ایک قرآن تمام جن اور انسان مل کر بھی سامنے لے آئیں۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ [١١:١٣]
”کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کی مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو “
اس آیت میں اعتراض کرنے والوں کے لیے مزید نرمی کر دی گئی اور پورے قرآن کی جگہ صرف دس سورتیں لانے کا کہا گیا۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ [١٠:٣٨]
”کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تو پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیراللہ کو بلا سکو، بلالو اگر تم سچے ہو “
اس آیت میں معترضین کو مزید رعایت دیتے ہوئے ایک سورت کے بنانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔

بعض غیر مسلم لوگوں نے بزعم خود قرآن کو تضاد کی کتاب ظاہر کرنے کے لیے تراجم کے  الفاظ سے اختلاف ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، مگر ایسے تمام اعتراض دوسرے تراجم پڑھ کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ  آج کل ولوگوں نے قرآن کی ”مثل“ سورت بنانے کے لیے طرح طرح کے مضحکہ خیز فقرات بنائے ہیں، جیسے کیا تم نے ہاتھی کو دیکھا، اس کی ایک سونڈ ہوتی ہے اور ایک دم ہوتی ہے وغیرہ۔سوچنے کی بات ہے کہ  اس طرح کے مضحکہ خیز فقرات قرآن کریم کا بدل ہوتے تونبی کریم ﷺ کے دور کے لوگ، جو شعر گوئی اور ادب میں اپنی مثال آپ تھے، اس سے بہتر فقرات بنا لیتے  مگر چیلنج کے باوجود کوئی ایسا نہ کرسکا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو پیشن گوئیاں کی وہ فوراً بھی پوری ہوئی اور آج تک پوری ہو رہی ہیں۔ جیسے میدان بدر میں فتح، روم کی فارس پر فتح اور فتح مکہ۔ اس کے علاوہ سائنس  جن معلومات کو 1400 سال کے تجربات کے بعد بیان کر رہی ہے وہ بھی قرآن کریم میں درج ہیں۔ اس کے برعکس مضحکہ خیز کلمات کو قرآن کے مثل قرار دینا بچگانہ پن کی انتہا ہے۔ اس مضمون میں اصل موضوع قرآن کے بزعم خود بیان کیے جانے والے تضادات اور بیان کی جانے والی مثل کا احاطہ کرنا نہیں ہے، بلکہ میں تو قرآن اور احادیث کی سچائی کے حوالے سے اپنائے جانے والے ایک جیسے معیارات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔
احادیث کے حوالے سے دیکھا جائے تو نبی کریم ﷺ کے بعد پہلی صدی ہجری میں ہی احادیث کی تدوین کا کام ہو گیا تھا۔ مشہور صحابی ابوہریرہ کے شاگرد نے بھی ایک صحیفہ لکھا جس میں ابو ہریرہ سے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کی جانے والی غالبا 134 احادیث پیش کی گئی۔ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ احادیث لکھتے رہے یا زبانی اگلی نسل کو منتقل  کرتے رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ احادیث کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔بعض لوگوں نے ذاتی مفاد کے لیے احادیث خود سے بھی گھڑ کر نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کی۔250 ہجری کے لگ بھگ جب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ  نے احادیث کو جمع کرنا شروع کیا تو یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سخت معیار کے مطابق  ان لاکھوں احادیث میں سے  چند ہزار احادیث اپنی کتاب صحیح بخاری میں پیش کی۔ اسی طرح تمام محدثین کرام نے اپنے اپنے معیارات بنائے اور جو احادیث ان کے مطابق پائی  اسے قبول کر لیا اور باقی کو رد کر لیا۔ اس وقت امت مسلمہ میں احادیث کی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ کچھ کے نزدیک احادیث کی 6 کتابیں معتبر ہیں اور باقی کتابوں کی احادیث ناقابل اعتبار، جب کہ کچھ کے نزدیک احادیث کی 4 کتابیں معتبر ہیں اور باقی نا قابل اعتبار۔تمام محدثین کرام نے بڑی نیک نیتی کے ساتھ جمع احادیث کا کام شروع کیا۔ اس کا مقصد امت تک صحیح احادیث پہنچانا تھا۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ تمام محدثین کے احادیث کو پرکھنے کے معیارات الگ الگ تھے جس میں ایک معیار قابل اعتبار سند بھی تھا۔ یعنی احادیث بیان کرنے والا بتائے کہ اس نے یہ حدیث کس سے سنی اوراس نے آگے کس سے سنی اور یہ سلسلہ نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام تک جا پہنچتا ہو۔  محدثین کی کتابیں ان کے بعد زبانی اور لکھی ہوئی صورت میں آ ج کے دور میں ہم تک پہنچی ہیں۔ اگر محدثین اس وقت احادیث جمع نہ کرتے تو غالبا آج کروڑوں احادیث لوگوں کی زبانوں پر ہوتی جس میں سے اصل اور نقل کی پہچان کرنا اُس وقت کی نسبت آج کافی مشکل ہوتا۔ اللہ تعالیٰ محدثین کرام پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔

دین اسلام میں احکامات کا اولین ماخذ قرآن کریم ہی ہے، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اس کا الہامی ہونا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے الفاظ جوں کے توں درج ہیں۔ اگر آج میں کسی غیر مسلم کوقرآن پر غوروفکر کرنے کے لیے کہوں تو اس کے جو سوالات ہونگے غالباً اس طرح کے ہونگے کہ کیا قرآن الہامی کتاب ہے؟ اس کا جواب قرآن آیات میں ہی مذکور ہے کہ جناب اگر یہ الہامی نہ ہوتا تو اس میں تضاد ہوتا۔ دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ کیا یہ قرآن جن لوگوں نے بھی ہم تک پہنچایا ہے کیا اسی حالت میں پہنچایا ہے جس میں نازل ہوا تھا۔ اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے، قرآن ہم تک لکھا ہوا بھی پہنچا ہے اور زبانی حفاظ کرام کے ذریعے ۔ کسی بھی طرح یہ ممکن ہی نہیں کہ اس میں کوئی ہیر پھیر کر سکے۔ لیکن پھر بھی ایک لمحے کےلیے یہ فرض کر لیا جائے کہ اس میں انسانوں نے کمی بیشی کی ہے تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اگر کسی انسان نے قرآن میں کچھ اضافہ کیا ہو گا تو اس میں بھی اختلاف آ گیا ہوگا ۔اگر اس میں اختلاف نہیں تو یہ کلام الٰہی ہے۔

بہت سے علماء کرام احادیث کو بھی وحی مانتے ہیں، مگر اس کا نام انہوں نے وحی غیر متلو یعنی جو وحی قرآن کی طرح تلاوت نہ کی جائے، اسی تناظر میں بہت سے دوست احادیث کی حقانیت کو ثابت کے لیے احادیث کا مقابلہ قرآن کریم سے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی  احادیث کی سند کے بارے میں سوال اٹھا دے تو پہلا جواب یہی ہوتا ہے کہ قرآن کریم بھی تو انہی لوگوں کی زبانی ہم تک پہنچا ہے۔ جناب والا قرآن اللہ تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے۔ اپنے اوپر کیے جانے والوں اعتراضات کا جواب قرآن کریم خود دیتا ہے۔اگر احادیث کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے آپ وہی الہامی معیار اپنانا چاہتے ہیں تو  آئیے اسی معیار کے مطابق احادیث کو دیکھتے ہیں۔قرآن کریم کے وحی اللہ یعنی الہامی ہونے کا   پہلا معیار یہ ہے کہ  قرآن کریم کی آیتوں میں اختلاف نہیں۔ کیا احادیث میں اختلاف ہے؟ بالکل ہے۔ کچھ لوگ احادیث کی روشنی میں ہی فروعی مسائل میں ضد کر کے مختلف فرقے بنا بیٹھے ہیں جو مختلف طریقوں سے نماز  پڑھتے ہیں۔ روزہ کھولنے کے اوقات مختلف ہیں اور اسی طرح سینکڑؤں فروعی مسائل ہیں۔ ان فروعی اختلافات کے بارے میں ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے ہر طریقے کے مطابق نماز پڑھی یا روزہ مختلف اوقات میں افطار کیا۔ تو ٹھیک ہے جناب اس بات کو  بالکل درست  مان لیتے ہیں، تو پھر اب امت کیوں ایک دوسرے کے طریقوں سے نماز نہیں پڑھتی؟ کیوں فروعی مسائل کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے؟
اعتقادی مسائل کو دیکھیں تو احادیث سے ہی ثابت کیا جاتا ہے کہ وفات پائے ہوئے لوگوں تک ایصال ثواب ایسے پہنچتا ہے جیسے آج کل ہم کسی کے نمبر پر ایزی لوڈ بھیج دیتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگوں کے مطابق وفات پانے والے اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہے، کسی کا کچھ پڑھنا اُن کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔  نبی کریم ﷺ نور تھے یا بشر، اس حوالے سے بھی مختلف احادیث کی بنیاد پر ہی فرقے  یا فرقوں میں فرقے بن چکے ہیں۔
اب دوسرے معیار کو دیکھتے ہیں جو قرآن کو الہامی بیان کرتا ہے کہ اگر یہ قرآن انسانی کلام ہے تو تم بھی ایسی ایک سورت لکھ لاؤ۔ اس معیار پر اگر احادیث کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ لاکھوں میں تعداد میں احادیث ایسی تھیں جو لوگوں نے خود سے بنائی تھیں، اس طرح کی تمام احادیث کو ،جن کے وضعی ہونے پر شک تھا انہیں، محدثین نے رد کر دیا۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ اُنہوں نے لاکھوں ایسی احادیث کو مسترد کیا۔  احادیث کی جو درجہ بندی کی گی  اس میں ایک درجہ وضعی یا ضعیف روایات کا رکھا گیا۔ اس میں وہ تمام احادیث بیان کی گئی جو  محدثین کے نزدیک لوگوں نے خود سے  گھڑی تھیں مگر اُن کو بھی کتابوں میں درج کر دیا گیا۔محدثین کرام نے اپنی انسانی سمجھ اور بصیرت کے مطابق احادیث کو پرکھا اور اپنی کتابوں میں درج کیا اور اپنی انسانی سمجھ کے مطابق ہی اُن کو مختلف درجہ بندیوں میں تقسیم کیا۔ محدثین انبیاء نہ تھے، اس لیے بعض لوگوں کو یہ احتمال رہتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جو احادیث رد کی گئیں ہو سکتا ہے اُن میں کوئی صحیح بھی ہو،  یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو احادیث لی گئی ہیں اُن میں کوئی غلط حدیث شامل نہ ہو گئی ہو۔
ایسے حالات میں ہم کس طرح احادیث کو قرآن کے بیان کیے گئے معیار کے مطابق بیان کر سکتے ہیں؟
ہمیں مختلف محدثین کی بیان کی گی احادیث کو ثابت کرنے کے لیے وہی معیار اپنانا چاہیے جو انہوں نے احادیث کو جمع کرنے کا بنایا تھا نہ کہ وہ معیار جو قرآن کریم کی حقانیت کا ہے۔ اگر آج مجھے قرآن کریم کا سلسلہ روایت معلوم نہ ہو تو اس سے قرآن کریم کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ قرآن کے الہامی ہونے کا معیار خود قرآن میں مذکور ہے، مگر حدیث کے سلسلہ روایت میں  ایک راوی نہ ملے تو علماء کے نزدیک وہ حدیث مشکوک ہو جاتی ہے۔
 اگر کوئی محدثین کے بیان کیے گئے معیار سے متفق نہیں تو وہ اپنا معیار بتائے کہ احادیث کے صحیح ہونے کا کیا معیار ہونا چاہیے؟ اس پر اگر کسی کا جواب ہو کہ وہ صرف ایسی احادیث کو درست تسلیم کرے گا جو قران کے مطابق ہونگی تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔جہاں محدثین کرام نے اپنے اپنے معیار اپنائے دوسروں کو بھی اپنا لینے دیجیے۔ ہاں اگر کوئی کہے کہ حدیث کی فلاں کتاب سے فلاں حدیث نکال دی جائے تو یہ علمی بددیانتی ہوگی۔ کسی کتاب سے مصنف کی مرضی کے بغیر  ایک فقرہ نکال دینے کے بعد وہ اس مصنف کی طرف تو منسوب نہیں کی جا سکتی۔اگر کوئی صحیح بخاری سے 50 احادیث نکال کر شائع کرتا ہے تو پھر صحیح بخاری کو امام بخاری ؒ کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی ، اسے احادیث نکالنے والے کی ترتیب و تدوین کہا جائے گا۔
اکثر ایسی صورتحال بھی پیش آتی ہے کہ اگرکوئی احادیث میں بیان کی گئی ایسی بات کا انکار کردیتا ہے جو اسے قرآنی آیات کے مطابق نہیں لگتی تو اس پر بغیر سوال کیے یہ کہہ کر  کافر  ہونے کا فتویٰ داغ دیا جاتا ہے کہ یہ  ہمارے علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو اس بات کا مخالف ہو کافر ہے۔ اللہ کے بندو، کسی کے کافر مسلمان ہونے کا فیصلہ قرآن کی روشنی میں ہونا چاہیے یا علماء کرام کی رائے شماری سے ؟ اگر کسی کے نزدیک قرآن سے ایک بات ثابت ہو جاتی ہے اور حدیث قرآنی آیت سے اختلاف کر رہی ہے تو اُس شخص سے کوئی سوال کیے بغیر صرف علماء کے کہنے پر کفر کا فتویٰ لگا دینا ،کیا  یہود کی طرح اپنے علماء کو اپنا معبود بنانا نہیں؟ آپ لوگ احادیث کی حقانیت کو ضرور ثابت کریں۔ پوری دنیا میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جو کہے کہ جو نبی کریم ﷺ نے کہا ہے وہ میں نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ یہ بات قرآن کے مخالف ہے، نبی کریم ﷺ ایسی بات کہہ نہیں سکتے تھے تو اس پر کس خوشی میں منکر حدیث کا فتویَ ؟ اس مسئلے میں احسن حدیث یعنی قرآنی آیت، جو نبی کریم ﷺ کے الفاظ ہی ہیں، کو تو وہ مان رہا ہے۔ ظاہری طور پر تو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ کفر کا فتویٰ احادیث کا انکار کرنے پر نہیں، اپنے علماء کی بات سے اختلاف کرنے پر دیا گیا ہے۔
قرآن بالکل حق ہے۔ وہ تمام احادیث جو قرآنی احکامات کے مطابق ہوں وہ بھی درست ہیں، مگر قرآن کا اپنا معیار ہے اور حدیث کااپنا  معیار ہے۔ ایک الہامی  کلام ہے ، دوسرا انسانی۔ اس لیے انسانی کلام کو ثابت کرنے کے لیے الہامی کلام سے الزامی سوالات نہیں کرنے چاہیں، کیونکہ الہامی کلام کو ثابت کرنے کا معیار اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے، جس پر اگر انسانی کلام کو پرکھا جائے گا تو وہ کبھی بھی معیار پر پورا نہ اترے گا۔  
میں نے بہت سے دوستوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی  ، احادیث کے بارے میں مباحث کرتے ہوئے قرآن پر الزامی سوالات نہ کیے جائیں، مگر اُن دوستوںکا جواب ہوتا ہے کہ
” قرآن پر اعتراض کرنے کے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک تعمیری اور دوسرا تخریبی ۔
تعمیری کا مقصد جستجو یا کسی مخالف سے کوئی بات اگلوانا، اور تخریبی کا مقصد صرف اور صرف اعتراض در اعتراض القرآن الکریم میں عیب نکالنا ( نعوذ باللہ من ذلک )۔ اور الحمد للہ ثم الحمد للہ ہماری جانب سے اگر اعتراض کیا بھی گیا ہےتو ہمیشہ سے اول الذکر تعمیری اعتراض ہی کیا گیا ہے۔ “

مجھے اپنے محترم دوستوں کے تعمیری جذبے  پر کوئی شک نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی تعمیری کوششوں کو تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو عرض یہ ہے کہ سب مسلمانوں کو ہر طرح کی تعمیری اور اصلاحی کوششیں شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم انجانے میں ایسا  فساد تو نہیں پھیلا رہے جس کا ہم کو پتہ بھی نہ ہو(سورۃ البقرہ آیت 11، 12)۔ اب ہمارے وہ   دوست جو  قرآن پر الزامی سوالات سے تعمیری کوششیں کر رہے ہیں اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے یا انجانے میں مستشرقین کے اعتراضات کو ایسے لوگوں تک پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں جو پہلے ہی یہاں  غیرمسلموں اور دہریوں کے نرغے میں ہوتے ہیں۔ اور دہریے اُن دوستوں کے بیان کیے ہوئے اعتراضات کومسلمان بچوں کو بہکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔  ہمارے محترم دوست احادیث پر کیے گئے  اعتراضات کے جواب اس طرح دیتے ہیں کہ ،جو جواب قرآن پر عائد اس اعتراض کا ہے وہی جواب احادیث پر عائد اعتراضات کا ہو گا۔ اب یہ جواب کیا ہو گا؟ یہ محترم دوستوں نے کبھی بتانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ارے بھائی آپ لوگ اعتراض بتا رہے ہو تو جواب بھی تو بتاؤ۔ اسی فرقہ پرست رویے سے تنگ لوگ   قرآن پرایسے اعتراضات کے بارے میں جان لیتے ہیں جو اُن کو پہلے نہیں معلوم تھے۔اس سے لوگ احادیث پر اپنا ایمان کیا مضبوط کریں گے الٹا  قرآن سے بھی برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ اس تمام صورت حال  کے بعد  ہمارے محترم دوست کہتے ہیں کہ کسی  بھی حدیث کاانکار کرنے کی آخری منزل دہریت ہے۔  اسے دہریت تک پہنچانے میں مسلمان بھائیوں کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہے ، جو کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ایسا کرنے میں اُن لوگوں کا بھی حصہ ہے جو اعتراضات تو کھل کر چھاپتے ہیں مگر جواب کو ہتھیار سمجھ کر چھپا کر رکھتے ہیں کہ بحث کے دوران سب سے آخر میں دیں گے۔
ہمارے محترم دوستوں کو چاہیے کہ اپنی تعمیری کوششیں بالکل جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور اس کا اجر دے گا۔ مگر ان کوششوں میں وہ جانے انجانے، مستشرقین کے بیان کیے ہوئے اعتراضات کاپی پیسٹ کر کے،  دہریت کے ہاتھ مضبوط نہ کریں۔ہدایت دینا نہ دینا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے مگر ہمیں اپنی کوششیں اس طرح جاری رکھنی چاہیے کہ کسی کو اسلام کے کسی گوشے پر اعتراض کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اگر کہیں الزامی سوال پیش کرنا پڑے تو فوراً ہی اس کا بہترین جواب بھی پیش کیا جائے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔

 (تحریر: 8 اگست 2014، ترمیم: 9 اپریل 2017)

قرآن کریم میں عریانیت؟







قرآن کریم میں عریانیت؟
تحریر:محمد امین اکبر

اس وقت بہت افسوس ہوتا ہے جب کوئی حدیث کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم  پر ہی اعتراضات کرنا شروع کر دیتا ہے۔اس چیز سے بچنا چاہیے۔ایسا کرتے ہوئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جو جواب قرآن کے اِن اعتراضات کا ہے وہی جواب حدیث کے اعتراضات کا ہو گا۔ ایک بات کو اپنے پلے باندھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے منتخب کیے ہوئے الفاظ ہیں، جبکہ احادیث کے الفاظ انسانی الفاظ ہیں، احادیث میں بعض جگہ براہ راست جو بات نبی کریم ﷺ نے کی وہی ہم تک پہنچائی گئی اور بعض جگہ نبی کریم ﷺ کے الفاظ کا مفہوم یا الفاظ کو اپنے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایسے میں قرآن و احادیث کےالفاظ کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن پر اعتراض اللہ تعالیٰ پر اعتراض بن جاتا ہے۔یہ کہنا ہی غلط بات ہے کہ جو جواب قرآن کے اس اعتراض کا ہے وہی حدیث کے اعتراض کا  ہے خود میں قرآن پر اعتراض کرنے والی بات ہے۔یاد رکھیں قرآن میں کسی طرح کا بھی کوئی اعتراض نہیں، ایسا کہنے اور سمجھنے والے منکر قرآن اور غیر مسلم ہونگے۔
ایک صاحب جن کے مسلمان ہونے پر اور صاحب ایمان ہونے پر مجھے کوئی شک نہیں، ماشاء اللہ سچے پکے مسلمان اور عاشق رسول ﷺ ہیں مگر جذبات آ کر ایسی بات کہہ گئے جو میرے ذاتی خیال میں کسی کو سمجھانے کے لیے بھی نہیں کرنی چاہیے۔اُن کا اصل اعتراض اس طرح تھا
احادیث میں عریانی باتیں ھیں تو ایسی بے شمار باتیں میں آپ کو قرآن سے بھی ثابت کر سکتا ھوں ۔۔۔۔!
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کی باتوں سے بچنے کی تلقین کی ہے تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بھی آیت سے کوئی  بھی مفہوم لے کر قرآن کو بے حیائی کی باتوں والا ثابت کریں۔ اس طرح تو آپ قرآن کو تضاد بیانی والی کتاب ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس ضمن میں جن آیات سے یہ ثابت کیا گیا ہے وہ اس طرح سے ہیں۔

چند نمونے پیش کرتا ھوں امید کرتا ھوں افاقہ ھوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وربائیبکم التی دخلتم بھن (النساء 23 ) لفظی ترجمہ :- تمھاری وہ ربیبائیں جن کے اندر تم نے اپنا الہ تناسل داخل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
الزامی سوال :- کیا اللہ اتنی گندی زبان استعمال کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اس سوال کا جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زبان کو گندا کہنے  یا سوچنے کا مطلب ہی اللہ تعالیٰ پر اعتراض اور  قرآن میں تضاد بیان کرنے کی کوشش ہو گا۔اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بہت باحیا ذات ہے، وہ قرآن کریم میں اس طرح کی بات کے لیے صرف اشارہ دے دیتے ہیں۔جیسے کہ اسی سورۃ النساء کی آیت 23 میں دَخَلْتُم  کہہ کر اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اب اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے تو آلہ تناسل کے دخول کا ذکر کر سکتے ہیں مگر ترجمہ لکھے ہوئے، جیسا کہ ایک دوست نے لکھا ہے، ایسے ویسے الفاظ لکھیں گے تو وہ تحریف میں شمار ہونگے کیونکہ یہ کسی بھی الفاظ کا ترجمہ نہیں بلکہ کسی انسان کے ذاتی خیالات ہیں جن کو بریکٹ میں لکھا جا سکتا ہے تاکہ پتہ چلے کہ یہ ذاتی خیالات ہیں۔ دَخَلْتُم کا لفظ قرآن کریم میں دخول کے معنوں میں آیا ہے اپنے سیاق و سباق سے ہر کسی پر اس کا مطلب واضح ہو جاتا ہے  اس لیے اس کےلکھنے سے اللہ تعالیٰ کے قرآن کے لکھے ہوئے کو بے حیائی کہنا درست نہیں۔دوسری آیات جہاں دَخَلْتُم آیا ہے اس طرح سے ہیں۔
 قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿المائدة: ٢٣﴾
مگر دو انسان جنہیں خدا کا خوف تھا اور ان پر خدا نے فضل و کرم کیا تھا انہوں نے کہا کہ ان کے دروازے سے داخل ہوجاؤ -اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو یقینا غالب آجاؤ گے اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم صاحبانِ ایمان ہو (۵: ۲۳)

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿النور: ٦١﴾
نابینا کے لئے کوئی حرج نہیں ہے اور لنگڑے آدمی کے لئے بھی کوئی حرج نہیں ہے اور مریض کے لئے بھی کوئی عیب نہیں ہے اور خود تمہارے لئے بھی کوئی گناہ نہیں ہے کہ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماں اور نانی دادی کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھانا کھالو .... اور تمہارے لئے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ سب مل کر کھاؤ یا متفرق طریقہ سے کھاؤ بس جب گھروں میں داخل ہو تو کم از کم اپنے ہی اوپر سلام کرلو کہ یہ پروردگار کی طرف سے نہایت ہی مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے اور پروردگار اسی طرح اپنی آیتوں کو واضح طریقہ سے بیان کرتا ہے کہ شاید تم عقل سے کام لے سکو (۲۴: ۶۱)
اسی طرح سورہ النسا کی آیت میں بھی سیاق و سباق سے دخول کا  جو مطلب نکلتا ہے وہ سب کو معلوم ہے اس کے لیے ترجمے میں کسی تحریف کی ضرورت نہیں۔
اور بہت سی ایسی آیات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اشاروں میں بات کی ہے مگر اُن پر بھی  کچھ غیر مسلموں کی طرف سے بے حیائی پھیلانے کا الزام لگا دیا جاتا ہے
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ [٢:٢٢٢]
اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو وہ نجاست ہے پس حیض میں عورتوں سے علیحدٰہ رہو اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو لیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نےتمہیں حکم دیا ہے بے شک الله توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اوربہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے

مندرجہ بالا آیت پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ جناب قرآن میں بے حیائی کا لفظ حیص موجود ہے۔ آیت کو دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر یہ بے حیائی کا لفظ ہے بھی تو بھی اس کے بارے میں لوگوں نے حکم پوچھا تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نجاست ہے، نجاست ہونے میں تو پہلے بھی کسی کو شک نہیں تھا اصل حکم تو یہ ہے کہ اس دوران عورتوں کے نزدیک نہ جاؤ۔ اس نزدیک جانے میں اشارے میں جو بات کر دی گئی ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ  کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس دوران خود کے اور اپنی عورتوں کے درمیان 10 فٹ کا فاصلہ رکھو۔ اس آیت کی تفسیر بیان کرنے ہوئے کوئی بھی شخص کچھ بھی بیان کرے اگر ترجمہ کے نام پر اسی طرح ترجمہ کرے گا جیسے اوپر اعتراض میں بیان کیا گیا ہے تو وہ تحریف کا مرتکب ہو گا۔

ایک اور آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے اشارے سے بات کرتے ہوئے سب سمجھا دیا ہے یہ ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا [٣٣:٤٩]
اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں طلاق دے دو اس سے پہلے کہ تم انہیں چھوو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے کہ تم ان کی گنتی پوری کرنے لگو سو انہیں کچھ فائدہ دو اور انہیں اچھی طرح سے رخصت کر دو

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ طلاق میں عدت کے لیے ضروری ہے کہ مرد نے عورت کو چھوا ہو۔ اس چھونے سے مراد مباشرت ہے ، نہ کہ بخار دیکھنے کے لیے ہاتھ سے ماتھا چھو لیا تب بھی طلاق کے بعد عدت ضروری ہو گی۔
اوپر موجودآیات میں اور اسی طرح بہت سی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتنے حیاوالے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی سمجھانے کےلیے ہی سہی اللہ تعالیٰ کے الفاظ کو بے حیائی سے تشبیہ دے تو وہ آخرت میں اپنا انجام سوچ لے۔

اب ایک دوسری آیت جس کا ترجمہ لکھتے ہوئے دانستہ یا نادانستہ تحریف کی کوشش کی گئی ہے اس طرح بیان کی ہے۔
و مریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا (التحریم 62)
لفظی ترجمہ :-اور یاد کرو مریم بنت عمران کو جس نے اپنی شرمگاہ کو بچاکر رکھا پس ہم نے اس میں پھونکا اپنی روح کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الزامی سوال : کیا اللہ کو مریم بنت عمران کی شرمگاہ سے اتنی دلچسپی تھی کہ اس کا ذکر اپنی کتاب میں کردیا ۔۔۔۔۔؟؟؟ نعوذ باللہ من ذلک احادیث تو عریانیت کی تعلیم دیتی ہیں اسلئے ان پر لعنت برسائی جاتی ہے اب قران کا بھی کچھ علاج کرو میرے پرویزیو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاق وسباق میں دیکھیں تو اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ مریم علیہ السلام نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح پھونگ دی۔اب یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کو مریم کی شرم گاہ سے دلچسپی تھی اس لیے ذکر ہے تو  یہ تو سیدھا سیدھا اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم پر اعتراض کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عضو بنایا ہے اب اس کی حفاظت کے لیے مریم علیہ السلام کی مثال دے کر قرآن کریم میں دو بار  ﴿الأنبياء: ٩١﴾ اور  ﴿التحريم: ١٢﴾ میں کر دیا تو  اس میں کسی  طرح کی بھی  بازاری انداز کی  دلچسپی کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا مریم علیہ السلام کی تعریف میں وہ آیات نظر نہیں آتی جن میں اُن کو جہان کے لوگوں سے افضل قرار دیا، ان کو صدیقہ اور پاک باز کہا گیا۔ اُن آیات کی رو سے آپ پھر یہ الزام لگا دیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) شرم گاہ تو شرم گاہ پوری مریم سے ہی دلچسپی پیدا ہو گئی؟ ایک اعتراض اس طرح بھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرج میں روح کو پھونکا (نعوذ باللہ)۔ قرآن کریم میں اور بہت سی آیات ایسی ہیں جہاں روح پھونکنے کا ذکر ہے۔حضرت آدم علیہ السلام میں روح پھونکنے کے حوالے سے ذکر ہے کہ
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ [١٥:٢٩]
پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا

یہاں حضرت آدم علیہ السلام میں روح پھونکنے کا ذکر ہے نہ کہ کسی خاص عضو میں۔

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ [٣٢:٩]
پھراس کے اعضا درست کیے اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنایا تم بہت تھوڑا شکر کرتے ہو

اسی طرح اور بہت سی آیات ہیں جہاں روح پھونکنے کا ذکر ہے۔اس لیے حضرت مریم کے حوالے سے روح پھونکنے پر اعتراض کرنا صرف دل کی کجی ہی ہے۔

تمام محترم اہل حدیث حضرات کے پاس حدیث کی حجت کو ثابت کرنے کے لیے اور بے شمار دلائل ہونگے ، آپ حدیث کی حجت کو دوسرے دلائل سے ثابت کریں ، نہ کہ قرآن بمقابلہ حدیث شروع کرا دیں۔ قرآنی الفاظ کا اور اھادیث کے الفاظ کا کوئی مقابلہ نہیں، قرآن کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں، جبکہ حدیث انسانی الفاظ میں ہم تک پہنچی ہے۔ کسی ایک قرآنی آیت کے ایک لفظ پر شک کرنے والا، کسی ایک لفظ میں تحریف سمجھنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا ،مگر اس کے برعکس اگر کوئی  کسی ایک حدیث یا چند احادیث کے قول رسول ہونے  پر اعتراض کرے مگر وہ قرآن پر یقین رکھے تو وہ مسلمان ہو گا۔ ایسے میں کیا قرآن کے الفاظ اور حدیث کے الفاظ کا مقابلہ کراتے ہوئے یہ کہنا درست ہو گا کہ جو جواب قرآن کے اعتراض کا ہو گا وہی حدیث کے الفاظ کا ہو گا۔ قرآن کے الفاظ پر اعتراض سمجھنا بذات خود ایک گمراہی اور جہالت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری تمام جانے انجانے میں کی ہوئی غلطیاں معاف فرمائے اور ہمیں ہدایت دے۔