فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ
النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا
مَّنسِيًّا
پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر
گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔( سورة مريم، آیت 23)
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ
النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا
اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے ترو تازہ پکی کھجوریں گرا دے
گا (سورة مريم، آیت 25)
کچھ
دوست ان آیات سے ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عیسی
علیہ اسلام کی ولادت اس موسم میں ہوئی جب کھجور کے درخت پر کھجوریں پک کر تیار ہو
چکی ہوتی ہیں یعنی انتہائی گرمیوں کا موسم ۔ اُن دوستوں کے نزدیک یہ آیات اس بات
کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ سردیوں کی بجائے گرمیوں میں پیدا ہوئے۔
مجھے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 25 دسمبر یا سردیوں میں پیدئش پر اصرار نہیں کہ
خودعیسائیوں کے ایک پوپ بینڈکٹ 16 نے تاریخ پیدائش مسیح کو چیلنج کر دیا ہے۔پوپ
صاحب کا اعتراض کیلنڈر کی تبدیلی کے حوالے
سے ہے، مگر ہم نے اس اعتراض کو دیکھنا ہے جو قرآن آیات کے حوالے سے پیش کیا جاتا
ہے۔
سورۃ
مریم سے اس پورے واقعے کو دیکھتے ہیں۔
پیدائش
مسیح سے پہلے اگر دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ
علیہ السلام اس طرح پیدا ہوئے کہ اُن کی
مائیں بانجھ (عَاقِرًاور عَقِيمٌ) تھیں (سورۃ 19 آیت 5، 8، سورۃ 51
آیت 29)، بانچھ پن کا علاج تو آج کے جدید دور میں بھی ممکن نہیں، اس وقت ان اصحاب
کی پیدائش بھی معجزہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ بائبل میں بھی حضرت اسحاق علیہ
السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی
پیدائش کو معجزے سے ہی تعبیر کیا گیا ہے مگر اُن پیدائشوں پر اس لیے اعتراض نہیں
کیا جا گیا کہ اُن میں تمام دنیاوی اسباب، یعنی ماں اور باپ دونوں موجود تھے۔ یہود
نے اصل فتنہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کھڑا کیا، جسے قرآن کریم
میں رد کر دیا گیا۔ہمارے تمام مسلمان بھائی(سوائے چند جدت پسندوں کے) حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کی پیدائش کو خدا کی قدرت کا کرشمہ قرار دیتے ہیں، مگر اسی واقعے میں
ایک چھوٹی سی بات جو بات چیت کے انداز سے بھی معجزہ لگتی ہے اسے ماننے سے انکار کر
دیتے ہیں ۔یہ بن موسم میں کھجور کا گرنا حضرت مریم علیہ السلام کی بھوک مٹانے کے
ساتھ ساتھ اُن کو تسلی دینا تھا کہ جس طرح خدا شروع سے معجزات کرتا آیا ہے اب پھر
کرے گا۔ اس پورے واقعے کو دیکھا جائے تو بہت سے معجزات نظر آتے ہیں۔
اصل واقعہ یوں ہے۔
سورۃ
آل عمران
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور
اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ
میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے
(یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں
سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق
دیتا ہے (37)
(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب فرشتوں
نے (مریم سے کہا) کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا
نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ ابن مریم ہوگا (اور) جو دنیا اور آخرت میں باآبرو اور
(خدا کے) خاصوں میں سے ہوگا (45)
اور ماں کی گود میں
اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا (46)
مریم نے کہا پروردگار میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا کہ کسی
انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ خدا اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا
ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے (47)
اور (عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر (ہو کر جائیں گے
اور کہیں گے) کہ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ
تمہارے سامنے مٹی کی مورت بشکل پرند بناتا ہوں پھر
اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہو جاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں اور خدا کے حکم سے
مردے میں جان ڈال دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع
کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں
میں تمہارے لیے (قدرت خدا کی) نشانی ہے (49)
سورۃ
مریم
تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا۔ (اس وقت) ہم نے
ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ تو ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا (17)
انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا
(یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں (19)
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر
نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں (20)
(فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے۔ اور
(میں اسے اسی طریق پر پیدا کروں گا) تاکہ اس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی
اور (ذریعہٴ) رحمت اور (مہربانی) بناؤں اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے (21)
پھر درد زہ ان کو کھجور
کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور
بھولی بسری ہوگئی ہوتی (23)
اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی
کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک
چشمہ جاری کردیا ہے (24)
تو کھاؤ اور پیو اور
آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا
کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی (26)
پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس
لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا (27)
اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت
کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے (31)
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن
زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے (33)
ان
آیات میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اصل ماجرا کیا تھا۔ کجھور کے معاملے کو دیکھیں
تو صاف پتہ چلتا ہے کہ کجھوروں کا لگنا ایک معجزہ ہے، ورنہ حضرت مریم علیہ السلام
جو پہلے سے ہی کجھور کے تنے کے پاس بیٹھی
ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ کجھور کے تنے کو ہلاؤ تو کھجوریں گریں گی۔کجھور کے
تنے کو ہلانے کا کہنا بھی صرف ایک سبب بنانے کے لیے تھا کہ ہاتھ لگانے سے ہی
کھجوریں گریں، ورنہ اُس حالت میں حضرت
مریم علیہ السلام میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ تنے کو ہلا سکے۔ حضرت مریم علیہ
السلام کے ساتھ اس وقت صرف یہی ایک معجزہ نہیں ہوا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے
بھی ان کے ساتھ بات کی ہوگی، تبھی تو انہوں نے جاتے ہی بچے کی طرف اشارہ کر
دیا۔قرآن کریم صرف خاص خاص باتیں بیان کرتا ہے جزیات نہیں۔ کھجور کے درخت سے بن
موسم کھجور گرنا بھی خاص بات تھی کوئی عام نہیں۔
مزید پڑھیں: میری کرسمس
No comments:
Post a Comment