سورۃ النساء آیت 58 اور 59
محمد امین اکبر
ایک
پوسٹ پر سورۃ النساء کی آیت 59 پر اپنا موقف پیش کرنے کو کہا گیا ۔ جب اسے رف
لکھنے لگا تو بڑھ کرنوٹ کی شکل ہی اختیار
کر گیا۔ اس لیے سوچا کہ اتنی محنت کو کمنٹ میں ہی پوسٹ نہ کروں بلکہ الگ سے
بھی البم میں فوٹو کی شکل میں مستقبل کے ریفرنس کے لیے رکھوں۔ 4:59 پر یہ تمام میری ذاتی رائے
ہیں۔
ایک
محترم نے 4:59 کے جس طرح حصے کیے ہیں اسی طرح اسے دیکھتے ہیں۔
يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي
الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ (پہلہ حصہ)
(اے ایمان والو
اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے بیچ موجود اولی الامر کی)
آیت کے مخاطب اہل ایمان ہیں۔اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے دور کے لوگ بھی آ گئے اور اُن کے بعد ایمان داخل ہونے والے اور بعد
کے زمانوں کے اہل ایمان بھی۔ وہ اہل ایمان بھی جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہیں اور وہ بھی کو کسی کافر ملک میں رہتے
ہیں۔ یہاں سب ہی کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ آیت کے اس حصے میں مختلف
طرح کے اہل ایمان کیسے عمل کریں گے ۔
اسلامی حکومت میں رہنے والے:
اسلامی حکومت کی اطاعت تو ویسے ہی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جب اسلامی حکومت قائم ہو گئ اور کسی نے اُس کی اطاعت نہ کی
تو اس کو اطاعت کرانے کے لیے زبردستی کا اختیار ہے۔ویسے بھی کسی بھی طرز حکومت میں
حکومت کی بات نہ ماننا بغاوت ہے۔ حکومت اپنی رٹ زبردستی قائم کر سکتی ہے۔
آگے أُولِي الْأَمْرِ سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد کوئی ایک ولی نہیں بلکہ بہت سے
ولی ہے۔ سپاہی کے لیے کیپٹن ولی، کیپٹن کے
لیے میجر اور میجر کے لیے کرنل سے ولی اور پھر ولیوں میں شمار ہونگے۔ اس لیے یہاں
ولی کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر 4:59 سے پچھلی آیت دیکھیں تو پتہ چل
جائے گا کہ اولیا کسے کہتے ہیں۔ اس سے پچھلی آیت میں انہی اولیا کو مخاطب کیا گیا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن
تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن
تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ
سَمِيعًا بَصِيرًا [٤:٥٨]
(خدا تم کو حکم
دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو
خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے)
اس آیت میں خدا حکم دیتا ہے۔ کس کو حکم دے رہا ہے۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ۔ کیوں کہ
پہلے انہیں ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مخاطب ایسے تمام لوگ ہیں جو کسی
بھی بات کر فیصلہ کرنے پر دور رسالت نبوی اور بعد میں مامور ہوئے ہیں۔ ان کو اللہ
نصیحت کر رہا ہے کہ فیصلہ انصاف سے کرو۔کس کس بات کا فیصلہ ۔ ہر بات کا فیصلہ۔
یہاں امانتوں کے لین دین کے حوالے سے بات ہو رہی ہے کہ امانتیں اُن کے مالکوں تک
پہنچا دو۔ اس کے بعد اگر جھگڑا ہو جائے کہ اس نے امانت میں خیانت کی ہے یا نہیں تو
جس شخص نے فیصلہ کرنا ہے وہ انصاف کے ساتھ کرے۔اگر وہ دل میں انصاف کرنے کی کوشش
کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے انصاف کی توفیق دے گا۔ اس کی مدد فرمائے گا۔اللہ سنتا
اور دیکھتا ہے سے مراد انصاف کرنے والے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہیں۔
اس کے بعد آیت 59 میں مخاطب اہل ایمان ہو گئے۔اب انہیں اللہ
کی اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے ، کس بات کی اطاعت کا؟ کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات
مانو۔ ایک حکم کا ذکر پچھلی آیت میں مثال کے طور ہو گیا یعنی امانتیں واپس کر دینے
کا۔ یعنی جو جو احکامات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیے ہیں اہل ایمان سب کومانو،
چاہے حکومت اسلامی ہو یا نہیں۔
اس کے بعد کہا گیا کہ رسول کی اطاعت کرو اور أُولِي
الْأَمْرِ کی۔ رسول کی
اطاعت تو رسول کے زمانے میں ہو گئ اور أُولِي
الْأَمْرِ کی اطاعت ہر زمانے کے
لیے ہیں۔ رسول کی اطاعت اسی زمانے میں ہونے کے ثبوت کے لیے 4:59 سے اگلی آیات
دیکھیں۔ أُولِي الْأَمْرِ کی اطاعت ، تو ان
میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نامزدکیا اور
بعد کے آنے والے تمام جج بھی اس میں شامل ہیں۔ کیوں اللہ تعالیٰ اس سے پہلی آیت
میں اپنا حکم سب کو دے رہا ہے۔
فَإِن
تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ : (دوسرا حصہ )
(پس اگر کسی
معاملہ میں تمہارے بیچ تنازعہ پیدا ہو جائے تو ( "ان" شرطیہ ہے جس کا اطلاق
آج کے قرآن پڑھنے والے پر بھی ہو گا ) غور طلب
بالکل ٹھیک ہے جناب، اس آیت کا ترجمہ وہی رہنے دیتے ہیں جو
محترم دوست نے کیا ہے۔ اس آیت کر تعلق ہر وقت کے لیے ہے۔ اب تنازعہ کی صورت کیا ہو
سکتی ہے۔ اوپر کی آیت میں دیکھ لیں۔ امانت کے حوالے دے دیکھ لیں، ایک کہے کہ امانت
دے دی ہے ، دوسرا کہیں نہیں دی۔اسی طرح کسی بھی مسئلے پر تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے
تو ہمیں حکم دیا جا رہا ہے کہ عدالتوں کا
رخ کریں۔یاد رہے کہ حاکموں یا أُولِي
الْأَمْرِ کے پاس اس صورت میں
ہی جانا ہے جب واقعی تنازعہ ہو جائے ناحق عدالت میں لے جانا منع ہے۔
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم
بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا
مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ [٢:١٨٨]
(اور تم لوگ نہ
تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس
غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے
کھانے کا موقع مل جائے )
فَرُدُّوهُ
إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ
الْآخِرِ ۚ (تیسرا حصہ)
(پس لوٹو اسے
(ہ کی ضمیر متنازعہ فیہ معاملہ کی طرف ہے) لیکر اللہ اور رسول کی طرف اگر تم اللہ اور
یوم الآخرت پر ایمان رکھتے ہو)
جی ہاں اسی
معاملے کی بات ہو رہی ہے۔جس معاملے میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول
کی طرف لوٹانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنازعہ کس قسم کا ہو گا۔عام سیدھا سادا
معاملہ ہو تو تنازعے کی کیا ضرورت؟ گواہ بلاؤ، ثبوت دیکھو اور جو قصور وار ہو اسے
سزا دی جائے۔ یہ تنازعہ خاص قسم کا ہے۔ اس تنازعے میں نہ تو کوئی گواہ ہے نہ ثبوت۔دونوں ہی اپنی جگہ
خود کو سچا سمجھتے ہوں۔ أُولِي الْأَمْرِ کے لیے فیصلے کی کوئی صورت نہ تو اس تنازعے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف
لوٹانے کا کہا جا رہا ہے۔رسول کی طرف لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں یہ تنازعہ ہوا ہو اور معاملہ کسی صاحب عدل کے پاس
ہو تو وہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی بڑی عدالت کی طرف ریفر کر
دے۔آج کے دور میں بھی معاملہ کا چھوٹی سے بڑی عدالت میں جائے گا۔ایک جج کی بجائے
دو ججوں کی عدالت میں جائے گا۔اگر پھر بھی فیصلے کی کوئی صورت نہ نکلے تو اس فیصلے
کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر جج یا أُولِي
الْأَمْرِکمزور
شہادت یا شک کی بنا پر کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کر دے تو بھی اُن کی بات
ماننی چاہیے اور معاملہ اللہ کی طرف لوٹا دینا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف
لوٹانا کیا ہے؟ قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی معاملہ ایسا ہے جس کے متعلق
ہم کہہ سکیں کہ یہ اللہ کی طرف لوٹانے کی مثال ہے۔ سورۃ نور کی ابتدائی آیات سے ہم
معاملہ اللہ کی طرف لوٹانے کی مثال سمجھ سکتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ
وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ
أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ [٢٤:٦]
(اور جو لوگ
اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ
ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر
گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے)
وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ
عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ [٢٤:٧]
(اور پانچویں
بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو )
وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن
تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ [٢٤:٨]
(اور عورت سے
سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص
(اپنے الزام میں) جھوٹا ہے )
وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ
عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ [٢٤:٩]
(اور پانچویں
مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو )
اس کے علاوہ
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا
جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ
وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ
فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ [٣:٦١]
(یہ علم آ جانے
کے بعد اب کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے محمدؐ! اس سے کہو، "آؤ
ہم اور تم خود بھی آ جائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خد ا سے دعا
کریں کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو")
اس آیت میں
حضرت عیسیٰ سے متعلق قرآن میں بتا دیا گیا ہے۔ اس باوجود اختلاف ہونے کی صورت میں
معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جا رہا ہے۔
4:59 میں جو
اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کا ذکر ہے اس کا مطلب ہے کہ جس چیز کا فیصلہ دنیا میں نہ ہو سکا
اس کا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فیصلہ کرے گا۔ امانت وغیرہ اور اس طرح کے دوسرے
مسائل میں اس طرح کی صورت حال کیوں پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کا فیصلہ نہ ہو سکے اور
معاملہ کو آخرت کی طرف لوٹانا پڑے۔ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کے ایک اور حکم کی اطاعت
نہ کرنا ہے۔وہ حکم جس کی اطاعت نہیں کی جاتی وہ سورۃ البقرۃ کی آیت 282 میں ہے کہ
(اے لوگو جو
ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ
لیا کرو) [٢:٢٨٢]
اگر فریقین اپنے پاس اس طرح کے ثبوت وغیرہ رکھیں تو أُولِي الْأَمْرِ کو فیصلے کرنے میں کسی قسم کی دشواری
نہ ہو گی۔
سوال:آج کے
دور میں اگر أُولِي الْأَمْرِ کے ساتھ کوئی تنازعہ ہوتا ہے میں اس
معاملہ کو لیکر کس کے پاس جاؤں؟
جواب: آج کل
آپ کے أُولِي الْأَمْرِنے جو سسٹم بنایا ہوا ہے آپ کو اس کے
مطابق عمل کرنا ہوگا۔ کسی ادارے میں تنازعہ ہو جائے تو اس کے محتسب موجود ہیں۔ کسی
عدالت کے فیصلے پر اعتراض (تنازعہ) ہے تو اس سے بڑی عدالتیں موجود ہیںَ ۔ دنیاوی أُولِي
الْأَمْرِ
میں سپریم کورٹ سب سے بڑی عدالت ہے۔ اس کے
فیصلے سے بھی تنازعہ حل نہیں ہوتا تو معاملہ کو اللہ پر ہی چھوڑ دینا بہتر ہے۔ اگر
عدالتیں واضح ثبوتوں اور شہادتوں کے بعد آپ کے خلاف فیصلہ دے رہی ہے تو آپ کو اسے
مان لینا چاہیے کہ أُولِي
الْأَمْرِ
کی اطاعت کا حکم اسی آیت 4:59 میں ہے۔
ذَٰلِكَ
خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا 4:59 (چوتھا حصہ )
یہ (حکومتی
تشکیل کی ) بہترین توضیح و تشریح ہے۔(یہی
ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔)
درست طریقہ
اس لحاظ سے ہے کہ قیامت پر یقین کی وجہ سے اصل اجر وہاں ملے گا۔مزید مقدمے بازی
نہیں ہو گی۔
اس آیت کا تعلق
اس وقت سے ہے جب معاملے کا فیصلے کرنے کے لیے واضح ثبوت نہ، ہو سکتا ہے صاحب عدل
صلح کا کہہ دے تو اس کی بات ماننی چاہیے۔
غیر اسلامی ممالک میں 4:59 کا اطلاق
ایسے مسلمان جو
غیر اسلامی ممالک میں رہتے ہیں وہ اس آیت 4:59 پر اس طرح سے عمل کریں
گے کہ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی
اطاعت میں قرآن کریم کے احکامات پر عمل کریں گے۔ أُولِي
الْأَمْرِ کی اطاعت کے ضمن میں وہاں کے جج اور قانون کا احترام کریں
گے اور ان کے فیصلے کو قرآن کے احکامات کی
روشنی میں تسلیم کریں گے۔کوئی ایسا حکم نہیں مانیں گے جو سراسر کفر ہو جیسے کہ
قرآن کریم میں ہے کہ
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ
حُسْنًا ۖ
وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ
مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ [٢٩:٨]
(ہم نے انسان کو
ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ
تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے)
نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم
کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔)
اسی طرح ایسے وہ
احکام جو شرک کا باعث بنتے ہو اُن احکام کی پابندی لازم نہیں۔ لیکن اگر زبردستی کی
جائے تو اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کفر کی بجائے ہجرت فرض ہے کہ کفر کا کوئی بہانہ
قبول نہ ہو گا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ
الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا
مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ
وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
[٤:٩٧]
(جو لوگ اپنے
نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم
کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں
نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا
ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے )
غیر اسلامی
ممالک میں کسی حد تک اپنا ایمان چھپایا جا سکتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے۔
وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ
فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن
يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ
عَدُوًّا مُّبِينًا [٤:١٠١]
(اور جب تم لوگ
سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصاً) جبکہ
تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے
ہوئے ہیں )
مگر کفر پر عمل نہیں کرنا۔ عبادات اس حد تک ترک
کی جاسکتی ہیں کہ سب کے سامنے ادا نہ کی
جائیں۔ سکارف وغیرہ کی پابندی ہو تو اس پابندی پر عمل کرنے پر بھی کوئی حرج نہیں۔ ہر
معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے دیکھنا چاہیے کہ اس کے کرنے سے کفر تو نہیں
ہو جائے۔ کفر نہ ہو تو کرنا جائز ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment