Pages

Wednesday, December 24, 2014

میری کرسمس


میری کرسمس

تحریر: محمد امین اکبر




دنیا کا ہر فرد کئی قسم کے تہوار مناتا ہے ۔مذہبی تہوارجو کسی بھی مذہب کے ماننے والے جہاں بھی ہوں مناتے ہیں۔ علاقائی تہوارجو مخصوص علاقوں تک محدود ہوتے ہیں۔اس طرح موسموں کے آنے جانےاور سال  کے بدلنے پر بھی ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے  خوش ہوتا۔کچھ تہواروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ علاقوں سے ہوتے ہوئے دنیا میں مقبول ہو جاتے ہیں، کچھ عقیدت کی وجہ سے مذہب کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی مذہب کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ عیسائیوں کے تہوار کرسمس کو عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی میں مناتے ہیں اور مذہبی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ شروع میں یہ تہوار اتنے جوش و خروش سے نہیں منایا جاتا تھا، مگر جب عیسائیت کے شروع ہونے کے چند سو سال بعد عیسائیت بہت سے ممالک کا سرکاری مذہب بن گیا تو اس تہوار نے بھی سرکاری سرپرستی میں پھلنا پھولنا شروع کر دیا۔اس تہوار پر عیسائی ایک دوسرےکو مبارک باداور تحفے تحائف دیتے ہیںِ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ تہوار تو عیسائیوں کا ہی ہے،  مگر تذبذب کی کیفیت وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں پوچھا جاتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان بھی کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارکباد دے سکتا ہے؟ تو اس کو سختی سے حرام قرار دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ عیسائی حضرات کو کرسمس کی مبارک باد دینا ایک ایسا  مسئلہ ہے جس پر اکثریتی علماء کا اجماع ہے کہ وہ ناجائز ہے ۔  جو لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں ان کے حوالہ جات میں دنیاوی معاشرت  اور اسلامی رواداری کا پہلو شامل ہوتا ہے۔اس حوالے سے قرآن پاک پڑھنے کے بعد میرا موقف یہ ہے کہ عیسائیوں کو اُن کی  خوشی کے مواقع پر،  جیسے شادی، سالگرہ، پیدائش،  میں شریک ہوا جا سکتا، اُن کوتہوار پر مبارکباد دیتے ہوئے میری کرسمس بھی کہا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک میں اس حوالے سے دیکھتے ہیں کیا بیان فرمایا گیا ہے۔

چند قرآنی آیات
سورہ روم کے شروع میں ذکر ہے کہ رومیوں (عیسائیوں) کی غیر مسلموں  کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی میں رومیوں کی شکست پر  اہل ایمان  کے دل غمگین اور چند سال بعد فتح پر خوش ہو گئے تھے، اس  خوشی اور غمی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ،کفار کے مقابلے میں، ان کی فتح پر خوش تھے۔اس وقت بھی عیسائیوں کے یہی عقائد تھے جو آج ہیں۔ اس وقت کے تمام عیسائی عقائد قرآن مجید میں تفصیل سے درج ہیں۔اس کے باوجود سورۃ روم کی آیات پڑھ کر لگتا ہے کہ اگر مسلمان اس جنگ کے موقع پر عیسائیوں کی مزید مدد کرنے کے قابل ہوتے تو جنگی مدد بھی ضرور کرتے۔
غُلِبَتِ الرُّومُ [٣٠:٢]
”روم مغلوب ہو گئے“
فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [٣٠:٣]
”نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے“

فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ [٣٠:٤]
”چند ہی سال میں پہلے اور پچھلے سب کا م الله کے ہاتھ میں ہیں اور اس دن مسلمان خوش ہوں گے“

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا [٤:٨٦]
”اور جب تمہیں کوئی دعا دے تو تم اس سے بہتر دعا دو یا الٹ کر ویسی ہی کہو بے شک الله ہر چیز کا حساب لینے والا ہے“
سورۃ النساء کی اس آیت میں لفظ بِتَحِيَّةٍ کا  استعمال کیا گیا ہے۔جو مبارکباد کے اور استقبالیہ کلمات ہیں ۔
أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا [٢٥:٧٥]
”یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا “
اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دعا دینے والا یا کلام کرنے والا مسلمان ہو تب ہی جواب دینا ہے۔
قرآن میں سورۃ المائدہ کی آیت 82 میں درج ہے کہ یہود اور ہنود کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ تو یہ کیسی دوستی ہے کہ ایک طرف وہ تہوار منا رہے ہوں اور ہم مبارکباد بھی نہ دے سکیں؟

قرآن کریم کے مطابق یہودی عیسائی صابی جو نیک عمل کرے گا جنت میں جائے گا [٥:٦٩] ۔جنت میں سب ایک دوسرےپر سلامتی بھیجیں گے[١٠:١٠] ۔ جب وہاں سلامتی بھیجی جا سکتی ہے تو یہاں ایک دوسرے کو مبارک باد کیوں نہیں دی جا سکتی؟ باقی یہ سوال کہ کون جنت میں جائے گا کسی کو معلوم نہیںِ اللہ تعالیٰ سے لکھوا کر کوئی نہیں لایا۔[٥:٦٩] میں تاقیامت تک کی بات ہو رہی ہے نہ کہ اُن عیسائیوں کی جو نبی کریم ﷺ سے پہلے گذر چکے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی قرآنی مجید میں بھی مشرک کے لیے جنت حرام ہونے کا لکھا ہے[٥:٧٢]۔ جو چاہے عیسائی ہو یا کسی اور مذہب کا۔

مبارکباد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے یا اللہ کے بیٹے کے لیے؟
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [٢:١٢٤]
”اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا کہا اور میری اولاد میں سے بھی فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا“
اس آیت کے مطابق ہم آل ابراہیم پر دورد بھیجتے ہیں اس کا تعلق آل ابراہیم کے برے لوگوں سے نہیں ہوتا۔ وہ صرف اچھے لوگوں پر جاتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم مبارک اللہ کے رسول کی پیدائش  کے لیے دیں اور اللہ اسے بیٹے کے لیے سمجھ کر ہمیں گناہ گار قرار دے ۔
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ [٣:٦٤]
”کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور سوائے الله کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں“
اس آیت کے مطابق اگر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان برابر کی بات دیکھیں تو وہ یہ ہے کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پیدا ہونے پر خوشی ہی منائی جاتی ہے۔
نجاشی نے سورۃ مریم کی پیدائش مسیح سے متعلق آیات سن کر کہا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان لکیر سے زیادہ فرق نہیں۔اس نے مسلمانوں اور عیسائیت کے درمیان برابر کی بات ہی دیکھی تھی جو پیدائش عیسیٰ علیہ السلام تھی نہ کہ اُنکا  نعوذ باللہ خدا کا بیٹا ہونا۔

معاشرت کا تقاضا
اسلام اپنے اندر جتنی رواداری دوسرے مذاہب کے لیے رکھتا ہے اتنی دنیا کا کوئی مذہب نہیں رکھتا۔ مگر ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رواداری صرف مذہبی عبادات کی اجازت دینے کی حد تک ہے اور بس۔قرآن کریم کے مطابق مسلمان  مرد کو  اہل کتاب عورت سے شادی  کی اجازت ہے(سورۃ المائدہ آیت 5) ، اسی وجہ سے بہت سے مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی بھی کرتے ہیں ۔ یاد رہے مسلمان مرد سے شادی شدہ اہل کتاب عورت پر اس کی عبادات کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔اب ذرا تصور کریں کتنی مضحکہ خیز صورتحال  ہو گی کہ کسی کی بیوی، جواس کی سب سے بڑی دوست ہوتی ہے،اس کی  شریک حیات،اس کا لباس، اس کا پردہ، اس کی راز دار(سورۃ البقرہ آیت 187) ، وہ اپنا تہوار منا رہی ہے، اپنی عبادت کر رہی ہے، تہوار کی خوشی میں اچھے اچھے کھانے پکا  رہی ہے ،مسلمان مرد پر یہ کھانے کھانا حلال ہے(سورۃ المائدہ آیت 5) مگر بیوی کو اس مذہبی یا رسمی تہوار کی مبارک باد دینا حلال نہیں۔ بہت سے لوگ جوان کے ملک میں رہتے ہیں ، اُن میں کھاتے ہیں، انہی کا سا لباس پہنتے ہیں، مگر ہر سال پھر پاکستانی مولوی سے ایک ہی بات کا فتویٰ طلب کرتے ہیں کہ  کرسمس کی مبارک باد دیں یا نادیں؟


ناجائز ہونے کے بارے میں دلائل

کرسمس کا مطلب اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا۔
ایک اعتراض تو یہ کیا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارک باد دیں گے تو آپ اس بات پر ایمان لے آئیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں(نعوذ باللہ)۔
 نہ جانے یہ غلط فہمی کہاں سے آ گئی کہ کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا(نعوذ باللہ) ہوتا ہے۔ ایسا کسی لغت میں نہیں لکھا ہوا۔مزیدیہ کہ جب صدر اوبامہ کسی مسلمان کو روزوں کی مبارک باد دیتا ہے تو کیا وہ ایمان لے آتا ہے کہ مسلمانوں کے روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی برحق حضرت محمد ﷺ پر فرض کیے گئے ۔ نہیں بلکہ وہ صرف اپنی عیسائی دنیا کی رواداری دکھا رہا ہوتا ہے۔کرسمس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے منسوب ایک تہوار ہے بس، کوئی اسے مذہبی عقیدت سےمناتا ہے تو کوئی بھرپور کاروباری جذبے سے اور کچھ چھٹیاں منانے کے لیے۔
اس حوالے سے قاری محمدحنیف ڈارصاحب کی ایک تحریر سے اقتباس:
” کیا ایسا ممکن ھے کہ وہ خدا سمجھتے رھیں اور ھم نبی سمجھ کر خوش ھو لیں،، جی ایسا بالکل ممکن ھے، قرآن حکیم میں ایک سورت ھے الصآفآت اس کی آیت نمبر 125 میں حضرت الیاس اپنی قوم کو کہہ رھے ھیں کہ تم بعل کو پکارتے ھو بچے مانگنے کے لئے اور احسن الخالقین کو بھول جاتے ھو،، یہ بعل نام کا بت تھا جس پر چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور بیٹے مانگے جاتے تھے،لنگ پوجا ٹائپ کی عبادات کی جاتی تھیں،، الغرض اس بت کی وجہ سے شوھر کو بھی " بعــل " مجازی خدا یعنی بیٹے دینے والا کہا جانے لگا ! اب یہی بعل کا لفظ حضرت سارا اپنے شوھر ابو الانبیاء حضرت ابراھیم کے لئے استعمال کرتی ھیں،، سورہ ھود کی آیت 72 میں وہ فرماتی ھیں کہ" اءلدُ و انا عجوزٓ و ھٰذا "بــعـــــلی "شیخاً ؟ کیا میں اب جنوں گی جبکہ میرا بعل بوڑھا پھونس ھو گیا ھے ؟ یہاں بعل شوھر کے معنوں میں استعمال ھوا ھے نہ کہ بت کے معنوں میں،، اسی طرح عیسی علیہ السلام کو وہ جو مرضی ھے سمجھیں ھم انہیں اللہ کا رسول سمجھ کر ان کی پیدائش کی مبارک دے سکتے ھیں !“

 نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ ایمان والے لوگوں کو کہیں کہ  ”راعنا“ نہ کہا کریں ”انظرنا“ کہا کریں [٢:١٠٤] ۔ اسی طرح اگر کسی کو لگتا ہے کہ میری کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا ہے(جو کہ نہیں ہے) تو اسے ہیپی برتھ ڈے ٹو عیسیٰ کہہ کر تصحیح کر دیں۔


سالگرہ کی مبارک صرف زندہ شخص کے لیے
سالگرہ پر ایک اعتراض یہ کہ، سالگرہ مبارک صرف زندہ شخص کو کہا جا سکتا ہے۔
اس اعتراض کا مطلب اس بات کا اقرار ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ سوائے چند جدت پسندوں کے تمام مسلمان ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ تسلیم کرتے ہیں۔

متفقہ اجماع
جہاں تک اس اجماع کی بات ہے کہ کافروں کو ان کے قومی شعائر پر مبارک باد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ ان کی عیدوں اور روزوں پر مبارک باد دینا حرام ہےاور غیرمسلموں کو شادی، بچے کی پیدائش وغیرہ پر مبارک باد دی جا سکتی ہے یا نہیں اس بارے اختلاف ہے۔
ا س بارے میں عرض ہےکہ پچھلی قوموں کے لیے خوشی کے موقعوں کا ذکر قرآن[٥:١١٤] میں بھی موجود ہے۔پچھلی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے روزے بھی فرض[٢:١٨٣] کیےتھے۔جب ہم پر اور پچھلی قوموں پر روزے اللہ تعالیٰ نے ہی فرض کیےتو روزوں پر مبارک باد دینا  کیوں حرام ہے؟
ایک طرف ہم یقین رکھتے ہیں کہ بچے تمام دین توحید پر پیدا ہوتے ہیں مگر اس بچے کی پیدائش کی مبارکباد دینے میں اختلاف  کیوں ہے ؟اب بچے کا تو کوئی قصور نہیں کہ وہ غیر مسلم کے گھر پیدا ہوا۔ یہی حال شادی کا ہے، شادی سے معاشرے کی بہت سی اخلاقی برائیاں ختم ہوتی ہے۔ مسلمان مردوں کو غیر مسلم عورتوں(اہل کتاب) سے شادی کی اجازت ہے مگر انہیں شادی کی مبارک باد ینے میں اختلاف  کیوں ہے؟


٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:

Monday, December 22, 2014

پیدائش عیسیٰ 25 دسمبر؟


پیدائش عیسیٰ 25 دسمبر؟


 فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔( سورة مريم، آیت 23)
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا
اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے ترو تازہ پکی کھجوریں گرا دے گا (سورة مريم، آیت 25)

کچھ دوست ان آیات سے ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ اسلام کی ولادت اس موسم میں ہوئی جب کھجور کے درخت پر کھجوریں پک کر تیار ہو چکی ہوتی ہیں یعنی انتہائی گرمیوں کا موسم ۔ اُن دوستوں کے نزدیک یہ آیات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ سردیوں کی بجائے گرمیوں میں پیدا ہوئے۔
مجھے حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کی  25 دسمبر یا سردیوں میں پیدئش پر اصرار نہیں کہ خودعیسائیوں کے ایک پوپ بینڈکٹ 16 نے تاریخ پیدائش مسیح کو چیلنج کر دیا ہے۔پوپ صاحب کا اعتراض  کیلنڈر کی تبدیلی کے حوالے سے ہے، مگر ہم نے اس اعتراض کو دیکھنا ہے جو قرآن آیات کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔
سورۃ مریم سے اس پورے واقعے کو دیکھتے ہیں۔
پیدائش مسیح سے پہلے اگر دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام  اور حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام  اس طرح پیدا ہوئے کہ اُن کی مائیں بانجھ (عَاقِرًاور عَقِيمٌ) تھیں (سورۃ 19 آیت 5، 8، سورۃ 51 آیت 29)، بانچھ پن کا علاج تو آج کے جدید دور میں بھی ممکن نہیں، اس وقت ان اصحاب کی پیدائش بھی معجزہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ بائبل میں بھی  حضرت اسحاق علیہ السلام  اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کو معجزے سے ہی تعبیر کیا گیا ہے مگر اُن پیدائشوں پر اس لیے اعتراض نہیں کیا جا گیا کہ اُن میں تمام دنیاوی اسباب، یعنی ماں اور باپ دونوں موجود تھے۔ یہود نے اصل فتنہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کھڑا کیا، جسے قرآن کریم میں رد کر دیا گیا۔ہمارے تمام مسلمان بھائی(سوائے چند جدت پسندوں کے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو خدا کی قدرت کا کرشمہ قرار دیتے ہیں، مگر اسی واقعے میں ایک چھوٹی سی بات جو بات چیت کے انداز سے بھی معجزہ لگتی ہے اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔یہ بن موسم میں کھجور کا گرنا حضرت مریم علیہ السلام کی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ اُن کو تسلی دینا تھا کہ جس طرح خدا شروع سے معجزات کرتا آیا ہے اب پھر کرے گا۔ اس پورے واقعے کو دیکھا جائے تو بہت سے معجزات نظر آتے ہیں۔
 اصل واقعہ یوں ہے۔
سورۃ آل عمران
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے (37)
(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب فرشتوں نے (مریم سے کہا) کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ ابن مریم ہوگا (اور) جو دنیا اور آخرت میں باآبرو اور (خدا کے) خاصوں میں سے ہوگا (45)
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا (46)
مریم نے کہا پروردگار میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ خدا اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے (47)
اور (عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر (ہو کر جائیں گے اور کہیں گے) کہ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بشکل پرند بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہو جاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مردے میں جان ڈال دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمہارے لیے (قدرت خدا کی) نشانی ہے (49)

سورۃ مریم
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں (16)
تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا۔ (اس وقت) ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ تو ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا (17)
مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں (18)
انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں (19)
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں (20)
(فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے۔ اور (میں اسے اسی طریق پر پیدا کروں گا) تاکہ اس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور (ذریعہٴ) رحمت اور (مہربانی) بناؤں اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے (21)
 تو وہ اس (بچّے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں (22)
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی (23)
اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے (24)
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی (25)
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی (26)
پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا (27)
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی (28)
تو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں (29)
بچے نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے (30)
اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے (31)
اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا (32)
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے (33)


ان آیات میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اصل ماجرا کیا تھا۔ کجھور کے معاملے کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ کجھوروں کا لگنا ایک معجزہ ہے، ورنہ حضرت مریم علیہ السلام جو پہلے سے ہی کجھور کے تنے  کے پاس بیٹھی ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ کجھور کے تنے کو ہلاؤ تو کھجوریں گریں گی۔کجھور کے تنے کو ہلانے کا کہنا بھی صرف ایک سبب بنانے کے لیے تھا کہ ہاتھ لگانے سے ہی کھجوریں گریں،  ورنہ اُس حالت میں حضرت مریم علیہ السلام میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ تنے کو ہلا سکے۔ حضرت مریم علیہ السلام کے ساتھ اس وقت صرف یہی ایک معجزہ نہیں ہوا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے بھی ان کے ساتھ بات کی ہوگی، تبھی تو انہوں نے جاتے ہی بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔قرآن کریم صرف خاص خاص باتیں بیان کرتا ہے جزیات نہیں۔ کھجور کے درخت سے بن موسم کھجور گرنا بھی خاص بات تھی کوئی عام نہیں۔


مزید پڑھیں: میری کرسمس