Pages

Monday, September 01, 2014

اللہ تعالیٰ کے پاؤں، طارق جمیل کی دعا۔








اللہ تعالیٰ کے پاؤں
(طارق جمیل کی دُعا)
از: محمد امین اکبر





فیس بک پر ابھی ایک پوسٹ نظر سے گذری جس سے پتہ چلا کہ کچھ علمائے کرام  اور ایک بہت بڑے ”عالم“ نے طارق جمیل صاحب کے تصور خدا کو خلاف قرآن قرار دیا۔
اپنا تصور خدا تو اُنہوں نے بیان نہیں کیا مگر ہائی لائٹ ٹیکسٹ پڑھ کر پتہ چلا کہ طارق جمیل صاحب کی ایک دُعا میں سے الفاظ چن کر اسے اُن کا تصور خدا تسلیم کر لیا گیا۔
میرے نزدیک اس دعا میں طارق جمیل صاحب نے اگراللہ کے پاؤں پکڑنے کی بات کی ہے تو کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ اس پر پوسٹ بنائی جائے نا ہی کفریہ کلمات ہیں کہ اس پر فتویٰ جاری کیا جائے۔ اگر طارق جمیل صاحب نے غلط کہا ہے تو اس کا رد قرآن سے پیش جائے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں دیکھا نہ دیکھ سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات بشریت کی حد تک انسان کو دی ہیں۔طارق جمیل صاحب نے اگر اللہ کے ہاتھ اور پاؤں کی بات کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ایسی کوئی بات کی ہے۔ اس کے لیے ہمیں قرآن کریم سےہی رہنمائی ملے گی۔
چند آیات پیش ہیں :
”اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا“(Al-Fath: 10)  
اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ خود اپنا ہاتھ بتا رہا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبی چنا تھا اس لیے ان کی بیعت اللہ کی بیعت کہلائے گی۔اب اگر اس آیت کے تناظر میں، میں یہ دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر آپ کا ہاتھ تھا ، اسی طرح آج امت محمدی(ﷺ) پر بھی اپنا ہاتھ رکھ دے تو کیا خیال ہے کافر ہو جاؤں گا؟

”میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو بے شک میرا رب سیدھی ر اہ پر ہے“
 (Hud: 56)
اس آیت کا مطلب بھی سب کو پتہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایک نبی کی زبان سے کہلوا رہے ہیں کہ ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے، جسے ہاتھ میں چوٹی ہونا کہا گیا، دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کےہاتھ میں سب کی لگام ہے۔

”یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں باندھے گئے ان کے ہاتھ، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔۔“
  (Al-Maaida: 64)
اس آیت میں چند انسانوں نے اپنی زبان میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں(نعوذ باللہ)۔ جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر فرما رہے ہیں کہ نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہیں۔ انسانوں کی بات کا انسانوں کی بات میں ہی جواب دیا گیا۔اس آیت سے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کو بندھا ہوا کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا ہے ۔ تو اس آیت سے میں یہ دعا کروں کہ یا اللہ آپ کے ہاتھ ہی دنیا میں سب سے کشادہ ہیں۔ اپنے کشادہ ہاتھوں سے مجھے خیر عطا فرما۔ کیا اس دعا سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا؟
”اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔“
 (Ar-Ra'd: 31)  
یہاں بھی اللہ کے ہاتھ سے مراد اللہ کا کنٹرول ہی ہے۔

”وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے“ (۳۶: ۸۲)
کن فیکون کے حوالے سے ااور بھی آیات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ  کن فیکون۔ کیا اللہ تعالیٰ کی زبان ہے جو اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑتا ہے؟
اصل میں تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اوروہ چیز ہو جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمجھانے کے لیے انسانوں کی زبان میں بات کی ہے کہ سب سے کم مشقت زبان سے ”ہو جا“ کہنے سے ہوتی ہے  کہ انسان سمجھ لے۔ درحقیت تو اللہ تعالیٰ کا ارادہ کرنا ہی کسی چیز کے ہو جانے کے لیے  کافی ہے۔

”وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے“ (۲۶: ۲۲۰)
بہت سی  آیات سمیع کی ہیں یعنی سننے والا، اگر اہم دعا کریں کہ یا اللہ سُن لے تو کیا کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو سننے والا سمجھا جبکہ سنتا تو انسان ہے؟
”تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے“  (۳۱: ۲۸)
اب بصیر کو بھی دیکھ لیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کو ابصیر کہیں تو کیا وہ نعوذ باللہ انسانوں کی سطح پر آ جائیں گے؟

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ اسی طرح بات کی ہے جیسے انسان کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ڈائنو سار کا ذکر نہیں کیا کہ کفار کہیں پہلے ڈائنوسار دکھاؤ تو سہی کہ وہ ہوتے کیسے ہیں۔ اسی طرح اُن خطوں، علاقوں اور اُن کے انبیاء کا ذکر نہ کیا جن کو قریش جانتے نہ تھے کہ قریش کہتے پہلے وہ خطہ دکھاؤ تو سہی کہ ہے کہاں؟۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ پاؤں کا ذکر کیا تاکہ انسان اچھی طرح بات سمجھ لے۔ اب اگر طارق جمیل اللہ کے پاؤں پکڑنے کی بات کر رہا ہے تو اتنا عام بچے کو بھی پتہ ہے وہ ویسے ہی تمثیلی بات ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کی۔پاؤں پڑنا یا پاؤں پکڑنا انتہائی عاجزی کے مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے پاؤں پکڑنے کی بات اپنی زبان میں کرتے  ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر رہے ہیں اور اسے آئندہ نہ دہرانے کا عہد کر رہے ہیں۔اسے اگر حقیقی معنی میں لیا جائے تویہ تو  بچہ بھی جانتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ ایک انسان پاؤں پکڑنے بیٹھ جائے۔

٭٭٭٭٭٭