Pages

Wednesday, December 24, 2014

میری کرسمس


میری کرسمس

تحریر: محمد امین اکبر




دنیا کا ہر فرد کئی قسم کے تہوار مناتا ہے ۔مذہبی تہوارجو کسی بھی مذہب کے ماننے والے جہاں بھی ہوں مناتے ہیں۔ علاقائی تہوارجو مخصوص علاقوں تک محدود ہوتے ہیں۔اس طرح موسموں کے آنے جانےاور سال  کے بدلنے پر بھی ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے  خوش ہوتا۔کچھ تہواروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ علاقوں سے ہوتے ہوئے دنیا میں مقبول ہو جاتے ہیں، کچھ عقیدت کی وجہ سے مذہب کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی مذہب کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ عیسائیوں کے تہوار کرسمس کو عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی میں مناتے ہیں اور مذہبی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ شروع میں یہ تہوار اتنے جوش و خروش سے نہیں منایا جاتا تھا، مگر جب عیسائیت کے شروع ہونے کے چند سو سال بعد عیسائیت بہت سے ممالک کا سرکاری مذہب بن گیا تو اس تہوار نے بھی سرکاری سرپرستی میں پھلنا پھولنا شروع کر دیا۔اس تہوار پر عیسائی ایک دوسرےکو مبارک باداور تحفے تحائف دیتے ہیںِ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ تہوار تو عیسائیوں کا ہی ہے،  مگر تذبذب کی کیفیت وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں پوچھا جاتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان بھی کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارکباد دے سکتا ہے؟ تو اس کو سختی سے حرام قرار دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ عیسائی حضرات کو کرسمس کی مبارک باد دینا ایک ایسا  مسئلہ ہے جس پر اکثریتی علماء کا اجماع ہے کہ وہ ناجائز ہے ۔  جو لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں ان کے حوالہ جات میں دنیاوی معاشرت  اور اسلامی رواداری کا پہلو شامل ہوتا ہے۔اس حوالے سے قرآن پاک پڑھنے کے بعد میرا موقف یہ ہے کہ عیسائیوں کو اُن کی  خوشی کے مواقع پر،  جیسے شادی، سالگرہ، پیدائش،  میں شریک ہوا جا سکتا، اُن کوتہوار پر مبارکباد دیتے ہوئے میری کرسمس بھی کہا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک میں اس حوالے سے دیکھتے ہیں کیا بیان فرمایا گیا ہے۔

چند قرآنی آیات
سورہ روم کے شروع میں ذکر ہے کہ رومیوں (عیسائیوں) کی غیر مسلموں  کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی میں رومیوں کی شکست پر  اہل ایمان  کے دل غمگین اور چند سال بعد فتح پر خوش ہو گئے تھے، اس  خوشی اور غمی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ،کفار کے مقابلے میں، ان کی فتح پر خوش تھے۔اس وقت بھی عیسائیوں کے یہی عقائد تھے جو آج ہیں۔ اس وقت کے تمام عیسائی عقائد قرآن مجید میں تفصیل سے درج ہیں۔اس کے باوجود سورۃ روم کی آیات پڑھ کر لگتا ہے کہ اگر مسلمان اس جنگ کے موقع پر عیسائیوں کی مزید مدد کرنے کے قابل ہوتے تو جنگی مدد بھی ضرور کرتے۔
غُلِبَتِ الرُّومُ [٣٠:٢]
”روم مغلوب ہو گئے“
فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [٣٠:٣]
”نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے“

فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ [٣٠:٤]
”چند ہی سال میں پہلے اور پچھلے سب کا م الله کے ہاتھ میں ہیں اور اس دن مسلمان خوش ہوں گے“

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا [٤:٨٦]
”اور جب تمہیں کوئی دعا دے تو تم اس سے بہتر دعا دو یا الٹ کر ویسی ہی کہو بے شک الله ہر چیز کا حساب لینے والا ہے“
سورۃ النساء کی اس آیت میں لفظ بِتَحِيَّةٍ کا  استعمال کیا گیا ہے۔جو مبارکباد کے اور استقبالیہ کلمات ہیں ۔
أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا [٢٥:٧٥]
”یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا “
اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دعا دینے والا یا کلام کرنے والا مسلمان ہو تب ہی جواب دینا ہے۔
قرآن میں سورۃ المائدہ کی آیت 82 میں درج ہے کہ یہود اور ہنود کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ تو یہ کیسی دوستی ہے کہ ایک طرف وہ تہوار منا رہے ہوں اور ہم مبارکباد بھی نہ دے سکیں؟

قرآن کریم کے مطابق یہودی عیسائی صابی جو نیک عمل کرے گا جنت میں جائے گا [٥:٦٩] ۔جنت میں سب ایک دوسرےپر سلامتی بھیجیں گے[١٠:١٠] ۔ جب وہاں سلامتی بھیجی جا سکتی ہے تو یہاں ایک دوسرے کو مبارک باد کیوں نہیں دی جا سکتی؟ باقی یہ سوال کہ کون جنت میں جائے گا کسی کو معلوم نہیںِ اللہ تعالیٰ سے لکھوا کر کوئی نہیں لایا۔[٥:٦٩] میں تاقیامت تک کی بات ہو رہی ہے نہ کہ اُن عیسائیوں کی جو نبی کریم ﷺ سے پہلے گذر چکے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی قرآنی مجید میں بھی مشرک کے لیے جنت حرام ہونے کا لکھا ہے[٥:٧٢]۔ جو چاہے عیسائی ہو یا کسی اور مذہب کا۔

مبارکباد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے یا اللہ کے بیٹے کے لیے؟
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [٢:١٢٤]
”اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا کہا اور میری اولاد میں سے بھی فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا“
اس آیت کے مطابق ہم آل ابراہیم پر دورد بھیجتے ہیں اس کا تعلق آل ابراہیم کے برے لوگوں سے نہیں ہوتا۔ وہ صرف اچھے لوگوں پر جاتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم مبارک اللہ کے رسول کی پیدائش  کے لیے دیں اور اللہ اسے بیٹے کے لیے سمجھ کر ہمیں گناہ گار قرار دے ۔
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ [٣:٦٤]
”کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے الله کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور سوائے الله کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں“
اس آیت کے مطابق اگر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان برابر کی بات دیکھیں تو وہ یہ ہے کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پیدا ہونے پر خوشی ہی منائی جاتی ہے۔
نجاشی نے سورۃ مریم کی پیدائش مسیح سے متعلق آیات سن کر کہا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان لکیر سے زیادہ فرق نہیں۔اس نے مسلمانوں اور عیسائیت کے درمیان برابر کی بات ہی دیکھی تھی جو پیدائش عیسیٰ علیہ السلام تھی نہ کہ اُنکا  نعوذ باللہ خدا کا بیٹا ہونا۔

معاشرت کا تقاضا
اسلام اپنے اندر جتنی رواداری دوسرے مذاہب کے لیے رکھتا ہے اتنی دنیا کا کوئی مذہب نہیں رکھتا۔ مگر ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رواداری صرف مذہبی عبادات کی اجازت دینے کی حد تک ہے اور بس۔قرآن کریم کے مطابق مسلمان  مرد کو  اہل کتاب عورت سے شادی  کی اجازت ہے(سورۃ المائدہ آیت 5) ، اسی وجہ سے بہت سے مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی بھی کرتے ہیں ۔ یاد رہے مسلمان مرد سے شادی شدہ اہل کتاب عورت پر اس کی عبادات کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔اب ذرا تصور کریں کتنی مضحکہ خیز صورتحال  ہو گی کہ کسی کی بیوی، جواس کی سب سے بڑی دوست ہوتی ہے،اس کی  شریک حیات،اس کا لباس، اس کا پردہ، اس کی راز دار(سورۃ البقرہ آیت 187) ، وہ اپنا تہوار منا رہی ہے، اپنی عبادت کر رہی ہے، تہوار کی خوشی میں اچھے اچھے کھانے پکا  رہی ہے ،مسلمان مرد پر یہ کھانے کھانا حلال ہے(سورۃ المائدہ آیت 5) مگر بیوی کو اس مذہبی یا رسمی تہوار کی مبارک باد دینا حلال نہیں۔ بہت سے لوگ جوان کے ملک میں رہتے ہیں ، اُن میں کھاتے ہیں، انہی کا سا لباس پہنتے ہیں، مگر ہر سال پھر پاکستانی مولوی سے ایک ہی بات کا فتویٰ طلب کرتے ہیں کہ  کرسمس کی مبارک باد دیں یا نادیں؟


ناجائز ہونے کے بارے میں دلائل

کرسمس کا مطلب اللہ تعالیٰ نے بیٹا جنا۔
ایک اعتراض تو یہ کیا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی عیسائی کو کرسمس کی مبارک باد دیں گے تو آپ اس بات پر ایمان لے آئیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں(نعوذ باللہ)۔
 نہ جانے یہ غلط فہمی کہاں سے آ گئی کہ کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا(نعوذ باللہ) ہوتا ہے۔ ایسا کسی لغت میں نہیں لکھا ہوا۔مزیدیہ کہ جب صدر اوبامہ کسی مسلمان کو روزوں کی مبارک باد دیتا ہے تو کیا وہ ایمان لے آتا ہے کہ مسلمانوں کے روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی برحق حضرت محمد ﷺ پر فرض کیے گئے ۔ نہیں بلکہ وہ صرف اپنی عیسائی دنیا کی رواداری دکھا رہا ہوتا ہے۔کرسمس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے منسوب ایک تہوار ہے بس، کوئی اسے مذہبی عقیدت سےمناتا ہے تو کوئی بھرپور کاروباری جذبے سے اور کچھ چھٹیاں منانے کے لیے۔
اس حوالے سے قاری محمدحنیف ڈارصاحب کی ایک تحریر سے اقتباس:
” کیا ایسا ممکن ھے کہ وہ خدا سمجھتے رھیں اور ھم نبی سمجھ کر خوش ھو لیں،، جی ایسا بالکل ممکن ھے، قرآن حکیم میں ایک سورت ھے الصآفآت اس کی آیت نمبر 125 میں حضرت الیاس اپنی قوم کو کہہ رھے ھیں کہ تم بعل کو پکارتے ھو بچے مانگنے کے لئے اور احسن الخالقین کو بھول جاتے ھو،، یہ بعل نام کا بت تھا جس پر چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے اور بیٹے مانگے جاتے تھے،لنگ پوجا ٹائپ کی عبادات کی جاتی تھیں،، الغرض اس بت کی وجہ سے شوھر کو بھی " بعــل " مجازی خدا یعنی بیٹے دینے والا کہا جانے لگا ! اب یہی بعل کا لفظ حضرت سارا اپنے شوھر ابو الانبیاء حضرت ابراھیم کے لئے استعمال کرتی ھیں،، سورہ ھود کی آیت 72 میں وہ فرماتی ھیں کہ" اءلدُ و انا عجوزٓ و ھٰذا "بــعـــــلی "شیخاً ؟ کیا میں اب جنوں گی جبکہ میرا بعل بوڑھا پھونس ھو گیا ھے ؟ یہاں بعل شوھر کے معنوں میں استعمال ھوا ھے نہ کہ بت کے معنوں میں،، اسی طرح عیسی علیہ السلام کو وہ جو مرضی ھے سمجھیں ھم انہیں اللہ کا رسول سمجھ کر ان کی پیدائش کی مبارک دے سکتے ھیں !“

 نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ ایمان والے لوگوں کو کہیں کہ  ”راعنا“ نہ کہا کریں ”انظرنا“ کہا کریں [٢:١٠٤] ۔ اسی طرح اگر کسی کو لگتا ہے کہ میری کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا ہے(جو کہ نہیں ہے) تو اسے ہیپی برتھ ڈے ٹو عیسیٰ کہہ کر تصحیح کر دیں۔


سالگرہ کی مبارک صرف زندہ شخص کے لیے
سالگرہ پر ایک اعتراض یہ کہ، سالگرہ مبارک صرف زندہ شخص کو کہا جا سکتا ہے۔
اس اعتراض کا مطلب اس بات کا اقرار ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ سوائے چند جدت پسندوں کے تمام مسلمان ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ تسلیم کرتے ہیں۔

متفقہ اجماع
جہاں تک اس اجماع کی بات ہے کہ کافروں کو ان کے قومی شعائر پر مبارک باد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ ان کی عیدوں اور روزوں پر مبارک باد دینا حرام ہےاور غیرمسلموں کو شادی، بچے کی پیدائش وغیرہ پر مبارک باد دی جا سکتی ہے یا نہیں اس بارے اختلاف ہے۔
ا س بارے میں عرض ہےکہ پچھلی قوموں کے لیے خوشی کے موقعوں کا ذکر قرآن[٥:١١٤] میں بھی موجود ہے۔پچھلی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے روزے بھی فرض[٢:١٨٣] کیےتھے۔جب ہم پر اور پچھلی قوموں پر روزے اللہ تعالیٰ نے ہی فرض کیےتو روزوں پر مبارک باد دینا  کیوں حرام ہے؟
ایک طرف ہم یقین رکھتے ہیں کہ بچے تمام دین توحید پر پیدا ہوتے ہیں مگر اس بچے کی پیدائش کی مبارکباد دینے میں اختلاف  کیوں ہے ؟اب بچے کا تو کوئی قصور نہیں کہ وہ غیر مسلم کے گھر پیدا ہوا۔ یہی حال شادی کا ہے، شادی سے معاشرے کی بہت سی اخلاقی برائیاں ختم ہوتی ہے۔ مسلمان مردوں کو غیر مسلم عورتوں(اہل کتاب) سے شادی کی اجازت ہے مگر انہیں شادی کی مبارک باد ینے میں اختلاف  کیوں ہے؟


٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں:

Monday, December 22, 2014

پیدائش عیسیٰ 25 دسمبر؟


پیدائش عیسیٰ 25 دسمبر؟


 فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔( سورة مريم، آیت 23)
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا
اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے ترو تازہ پکی کھجوریں گرا دے گا (سورة مريم، آیت 25)

کچھ دوست ان آیات سے ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ اسلام کی ولادت اس موسم میں ہوئی جب کھجور کے درخت پر کھجوریں پک کر تیار ہو چکی ہوتی ہیں یعنی انتہائی گرمیوں کا موسم ۔ اُن دوستوں کے نزدیک یہ آیات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ سردیوں کی بجائے گرمیوں میں پیدا ہوئے۔
مجھے حضرت  عیسیٰ علیہ السلام کی  25 دسمبر یا سردیوں میں پیدئش پر اصرار نہیں کہ خودعیسائیوں کے ایک پوپ بینڈکٹ 16 نے تاریخ پیدائش مسیح کو چیلنج کر دیا ہے۔پوپ صاحب کا اعتراض  کیلنڈر کی تبدیلی کے حوالے سے ہے، مگر ہم نے اس اعتراض کو دیکھنا ہے جو قرآن آیات کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔
سورۃ مریم سے اس پورے واقعے کو دیکھتے ہیں۔
پیدائش مسیح سے پہلے اگر دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام  اور حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام  اس طرح پیدا ہوئے کہ اُن کی مائیں بانجھ (عَاقِرًاور عَقِيمٌ) تھیں (سورۃ 19 آیت 5، 8، سورۃ 51 آیت 29)، بانچھ پن کا علاج تو آج کے جدید دور میں بھی ممکن نہیں، اس وقت ان اصحاب کی پیدائش بھی معجزہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ بائبل میں بھی  حضرت اسحاق علیہ السلام  اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کو معجزے سے ہی تعبیر کیا گیا ہے مگر اُن پیدائشوں پر اس لیے اعتراض نہیں کیا جا گیا کہ اُن میں تمام دنیاوی اسباب، یعنی ماں اور باپ دونوں موجود تھے۔ یہود نے اصل فتنہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کھڑا کیا، جسے قرآن کریم میں رد کر دیا گیا۔ہمارے تمام مسلمان بھائی(سوائے چند جدت پسندوں کے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو خدا کی قدرت کا کرشمہ قرار دیتے ہیں، مگر اسی واقعے میں ایک چھوٹی سی بات جو بات چیت کے انداز سے بھی معجزہ لگتی ہے اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔یہ بن موسم میں کھجور کا گرنا حضرت مریم علیہ السلام کی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ اُن کو تسلی دینا تھا کہ جس طرح خدا شروع سے معجزات کرتا آیا ہے اب پھر کرے گا۔ اس پورے واقعے کو دیکھا جائے تو بہت سے معجزات نظر آتے ہیں۔
 اصل واقعہ یوں ہے۔
سورۃ آل عمران
تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے (37)
(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب فرشتوں نے (مریم سے کہا) کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ ابن مریم ہوگا (اور) جو دنیا اور آخرت میں باآبرو اور (خدا کے) خاصوں میں سے ہوگا (45)
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا (46)
مریم نے کہا پروردگار میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ خدا اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے (47)
اور (عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر (ہو کر جائیں گے اور کہیں گے) کہ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بشکل پرند بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہو جاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مردے میں جان ڈال دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمہارے لیے (قدرت خدا کی) نشانی ہے (49)

سورۃ مریم
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں (16)
تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا۔ (اس وقت) ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ تو ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا (17)
مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں (18)
انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں (19)
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں (20)
(فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے۔ اور (میں اسے اسی طریق پر پیدا کروں گا) تاکہ اس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور (ذریعہٴ) رحمت اور (مہربانی) بناؤں اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے (21)
 تو وہ اس (بچّے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں (22)
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی (23)
اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو تمہارے پروردگار نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے (24)
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی (25)
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کروں گی (26)
پھر وہ اس (بچّے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُونے برا کام کیا (27)
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی (28)
تو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں (29)
بچے نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے (30)
اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے (31)
اور (مجھے) اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا (32)
اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر سلام (ورحمت) ہے (33)


ان آیات میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اصل ماجرا کیا تھا۔ کجھور کے معاملے کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ کجھوروں کا لگنا ایک معجزہ ہے، ورنہ حضرت مریم علیہ السلام جو پہلے سے ہی کجھور کے تنے  کے پاس بیٹھی ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ کجھور کے تنے کو ہلاؤ تو کھجوریں گریں گی۔کجھور کے تنے کو ہلانے کا کہنا بھی صرف ایک سبب بنانے کے لیے تھا کہ ہاتھ لگانے سے ہی کھجوریں گریں،  ورنہ اُس حالت میں حضرت مریم علیہ السلام میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ تنے کو ہلا سکے۔ حضرت مریم علیہ السلام کے ساتھ اس وقت صرف یہی ایک معجزہ نہیں ہوا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے بھی ان کے ساتھ بات کی ہوگی، تبھی تو انہوں نے جاتے ہی بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔قرآن کریم صرف خاص خاص باتیں بیان کرتا ہے جزیات نہیں۔ کھجور کے درخت سے بن موسم کھجور گرنا بھی خاص بات تھی کوئی عام نہیں۔


مزید پڑھیں: میری کرسمس


Monday, September 01, 2014

اللہ تعالیٰ کے پاؤں، طارق جمیل کی دعا۔








اللہ تعالیٰ کے پاؤں
(طارق جمیل کی دُعا)
از: محمد امین اکبر





فیس بک پر ابھی ایک پوسٹ نظر سے گذری جس سے پتہ چلا کہ کچھ علمائے کرام  اور ایک بہت بڑے ”عالم“ نے طارق جمیل صاحب کے تصور خدا کو خلاف قرآن قرار دیا۔
اپنا تصور خدا تو اُنہوں نے بیان نہیں کیا مگر ہائی لائٹ ٹیکسٹ پڑھ کر پتہ چلا کہ طارق جمیل صاحب کی ایک دُعا میں سے الفاظ چن کر اسے اُن کا تصور خدا تسلیم کر لیا گیا۔
میرے نزدیک اس دعا میں طارق جمیل صاحب نے اگراللہ کے پاؤں پکڑنے کی بات کی ہے تو کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ اس پر پوسٹ بنائی جائے نا ہی کفریہ کلمات ہیں کہ اس پر فتویٰ جاری کیا جائے۔ اگر طارق جمیل صاحب نے غلط کہا ہے تو اس کا رد قرآن سے پیش جائے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں دیکھا نہ دیکھ سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات بشریت کی حد تک انسان کو دی ہیں۔طارق جمیل صاحب نے اگر اللہ کے ہاتھ اور پاؤں کی بات کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ایسی کوئی بات کی ہے۔ اس کے لیے ہمیں قرآن کریم سےہی رہنمائی ملے گی۔
چند آیات پیش ہیں :
”اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا“(Al-Fath: 10)  
اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ خود اپنا ہاتھ بتا رہا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبی چنا تھا اس لیے ان کی بیعت اللہ کی بیعت کہلائے گی۔اب اگر اس آیت کے تناظر میں، میں یہ دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر آپ کا ہاتھ تھا ، اسی طرح آج امت محمدی(ﷺ) پر بھی اپنا ہاتھ رکھ دے تو کیا خیال ہے کافر ہو جاؤں گا؟

”میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو بے شک میرا رب سیدھی ر اہ پر ہے“
 (Hud: 56)
اس آیت کا مطلب بھی سب کو پتہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایک نبی کی زبان سے کہلوا رہے ہیں کہ ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے، جسے ہاتھ میں چوٹی ہونا کہا گیا، دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کےہاتھ میں سب کی لگام ہے۔

”یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں باندھے گئے ان کے ہاتھ، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔۔“
  (Al-Maaida: 64)
اس آیت میں چند انسانوں نے اپنی زبان میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں(نعوذ باللہ)۔ جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر فرما رہے ہیں کہ نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہیں۔ انسانوں کی بات کا انسانوں کی بات میں ہی جواب دیا گیا۔اس آیت سے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کو بندھا ہوا کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا ہے ۔ تو اس آیت سے میں یہ دعا کروں کہ یا اللہ آپ کے ہاتھ ہی دنیا میں سب سے کشادہ ہیں۔ اپنے کشادہ ہاتھوں سے مجھے خیر عطا فرما۔ کیا اس دعا سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا؟
”اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔“
 (Ar-Ra'd: 31)  
یہاں بھی اللہ کے ہاتھ سے مراد اللہ کا کنٹرول ہی ہے۔

”وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے“ (۳۶: ۸۲)
کن فیکون کے حوالے سے ااور بھی آیات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ  کن فیکون۔ کیا اللہ تعالیٰ کی زبان ہے جو اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑتا ہے؟
اصل میں تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اوروہ چیز ہو جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمجھانے کے لیے انسانوں کی زبان میں بات کی ہے کہ سب سے کم مشقت زبان سے ”ہو جا“ کہنے سے ہوتی ہے  کہ انسان سمجھ لے۔ درحقیت تو اللہ تعالیٰ کا ارادہ کرنا ہی کسی چیز کے ہو جانے کے لیے  کافی ہے۔

”وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے“ (۲۶: ۲۲۰)
بہت سی  آیات سمیع کی ہیں یعنی سننے والا، اگر اہم دعا کریں کہ یا اللہ سُن لے تو کیا کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو سننے والا سمجھا جبکہ سنتا تو انسان ہے؟
”تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے“  (۳۱: ۲۸)
اب بصیر کو بھی دیکھ لیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کو ابصیر کہیں تو کیا وہ نعوذ باللہ انسانوں کی سطح پر آ جائیں گے؟

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ اسی طرح بات کی ہے جیسے انسان کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ڈائنو سار کا ذکر نہیں کیا کہ کفار کہیں پہلے ڈائنوسار دکھاؤ تو سہی کہ وہ ہوتے کیسے ہیں۔ اسی طرح اُن خطوں، علاقوں اور اُن کے انبیاء کا ذکر نہ کیا جن کو قریش جانتے نہ تھے کہ قریش کہتے پہلے وہ خطہ دکھاؤ تو سہی کہ ہے کہاں؟۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ پاؤں کا ذکر کیا تاکہ انسان اچھی طرح بات سمجھ لے۔ اب اگر طارق جمیل اللہ کے پاؤں پکڑنے کی بات کر رہا ہے تو اتنا عام بچے کو بھی پتہ ہے وہ ویسے ہی تمثیلی بات ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کی۔پاؤں پڑنا یا پاؤں پکڑنا انتہائی عاجزی کے مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے پاؤں پکڑنے کی بات اپنی زبان میں کرتے  ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر رہے ہیں اور اسے آئندہ نہ دہرانے کا عہد کر رہے ہیں۔اسے اگر حقیقی معنی میں لیا جائے تویہ تو  بچہ بھی جانتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ ایک انسان پاؤں پکڑنے بیٹھ جائے۔

٭٭٭٭٭٭ 

Sunday, August 03, 2014

اسلامی حجاب(پردہ)






Islamic Hijab
By: Muhammad Ameen Akbar
اسلامی حجاب(پردہ)
تحریر: محمد امین اکبر






قرآن اور حدیث کی سچائی کے پیمانے








قرآن اور حدیث کی سچائی کے پیمانے
تحریر: محمد امین اکبر
 



قرآن : اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر 23 سال کے عرصے میں تھوڑی تھوڑی نازل کر کے مکمل کی۔
احادیث:نبی کریم ﷺ سے منسوب اقوال جو ہم تک مختلف راویوں کے ذریعے سے پہنچے۔
جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس وقت کے کفار بھی اس کے من جانب اللہ ہونے پر اعتراضات کرتے تھے، اور آج 1400 سال بعد کے مستشرقین اور اسلام دشمن عناصر کو بھی قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے پر اعتراض ہے۔اللہ تعالیٰ نے کفار اور مستشرقین کے ان اعتراضات کا جواب قرآن میں شامل کر دیا ہے۔ اعتراضات کے ان جوابات کو شامل کرنے کی ایک بڑی وجہ صرف یہ تھی کہ اگر ایک ہزار سال کے بعد بھی کوئی غیر مسلم قرآن کریم کی حقانیت پر سوال اٹھائے تو اس کے اعتراضات کا جواب بھی اس میں موجود ہو ۔قرآن کے منجانب اللہ اور حق ہونے کی دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا [٤:٨٢]
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے “
اس آیت کے مطابق اگر قرآنی الہامی کی بجائے انسانی تصنیف ہوتی تو اس میں بیان کیے گئے حقائق میں تضاد ہوتے۔

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا [١٧:٨٨]
”کہہ دیجیئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل نا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وه (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں “
اس آیت میں تمام جنوں اور انسانوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ  اگر قرآن الہامی نہیں بلکہ انسانی کتاب ہے تو ایک قرآن تمام جن اور انسان مل کر بھی سامنے لے آئیں۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ [١١:١٣]
”کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کی مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو “
اس آیت میں اعتراض کرنے والوں کے لیے مزید نرمی کر دی گئی اور پورے قرآن کی جگہ صرف دس سورتیں لانے کا کہا گیا۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ [١٠:٣٨]
”کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تو پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیراللہ کو بلا سکو، بلالو اگر تم سچے ہو “
اس آیت میں معترضین کو مزید رعایت دیتے ہوئے ایک سورت کے بنانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔

بعض غیر مسلم لوگوں نے بزعم خود قرآن کو تضاد کی کتاب ظاہر کرنے کے لیے تراجم کے  الفاظ سے اختلاف ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، مگر ایسے تمام اعتراض دوسرے تراجم پڑھ کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ  آج کل ولوگوں نے قرآن کی ”مثل“ سورت بنانے کے لیے طرح طرح کے مضحکہ خیز فقرات بنائے ہیں، جیسے کیا تم نے ہاتھی کو دیکھا، اس کی ایک سونڈ ہوتی ہے اور ایک دم ہوتی ہے وغیرہ۔سوچنے کی بات ہے کہ  اس طرح کے مضحکہ خیز فقرات قرآن کریم کا بدل ہوتے تونبی کریم ﷺ کے دور کے لوگ، جو شعر گوئی اور ادب میں اپنی مثال آپ تھے، اس سے بہتر فقرات بنا لیتے  مگر چیلنج کے باوجود کوئی ایسا نہ کرسکا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو پیشن گوئیاں کی وہ فوراً بھی پوری ہوئی اور آج تک پوری ہو رہی ہیں۔ جیسے میدان بدر میں فتح، روم کی فارس پر فتح اور فتح مکہ۔ اس کے علاوہ سائنس  جن معلومات کو 1400 سال کے تجربات کے بعد بیان کر رہی ہے وہ بھی قرآن کریم میں درج ہیں۔ اس کے برعکس مضحکہ خیز کلمات کو قرآن کے مثل قرار دینا بچگانہ پن کی انتہا ہے۔ اس مضمون میں اصل موضوع قرآن کے بزعم خود بیان کیے جانے والے تضادات اور بیان کی جانے والی مثل کا احاطہ کرنا نہیں ہے، بلکہ میں تو قرآن اور احادیث کی سچائی کے حوالے سے اپنائے جانے والے ایک جیسے معیارات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔
احادیث کے حوالے سے دیکھا جائے تو نبی کریم ﷺ کے بعد پہلی صدی ہجری میں ہی احادیث کی تدوین کا کام ہو گیا تھا۔ مشہور صحابی ابوہریرہ کے شاگرد نے بھی ایک صحیفہ لکھا جس میں ابو ہریرہ سے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کی جانے والی غالبا 134 احادیث پیش کی گئی۔ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ احادیث لکھتے رہے یا زبانی اگلی نسل کو منتقل  کرتے رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ احادیث کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔بعض لوگوں نے ذاتی مفاد کے لیے احادیث خود سے بھی گھڑ کر نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کی۔250 ہجری کے لگ بھگ جب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ  نے احادیث کو جمع کرنا شروع کیا تو یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سخت معیار کے مطابق  ان لاکھوں احادیث میں سے  چند ہزار احادیث اپنی کتاب صحیح بخاری میں پیش کی۔ اسی طرح تمام محدثین کرام نے اپنے اپنے معیارات بنائے اور جو احادیث ان کے مطابق پائی  اسے قبول کر لیا اور باقی کو رد کر لیا۔ اس وقت امت مسلمہ میں احادیث کی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ کچھ کے نزدیک احادیث کی 6 کتابیں معتبر ہیں اور باقی کتابوں کی احادیث ناقابل اعتبار، جب کہ کچھ کے نزدیک احادیث کی 4 کتابیں معتبر ہیں اور باقی نا قابل اعتبار۔تمام محدثین کرام نے بڑی نیک نیتی کے ساتھ جمع احادیث کا کام شروع کیا۔ اس کا مقصد امت تک صحیح احادیث پہنچانا تھا۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ تمام محدثین کے احادیث کو پرکھنے کے معیارات الگ الگ تھے جس میں ایک معیار قابل اعتبار سند بھی تھا۔ یعنی احادیث بیان کرنے والا بتائے کہ اس نے یہ حدیث کس سے سنی اوراس نے آگے کس سے سنی اور یہ سلسلہ نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام تک جا پہنچتا ہو۔  محدثین کی کتابیں ان کے بعد زبانی اور لکھی ہوئی صورت میں آ ج کے دور میں ہم تک پہنچی ہیں۔ اگر محدثین اس وقت احادیث جمع نہ کرتے تو غالبا آج کروڑوں احادیث لوگوں کی زبانوں پر ہوتی جس میں سے اصل اور نقل کی پہچان کرنا اُس وقت کی نسبت آج کافی مشکل ہوتا۔ اللہ تعالیٰ محدثین کرام پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔

دین اسلام میں احکامات کا اولین ماخذ قرآن کریم ہی ہے، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اس کا الہامی ہونا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے الفاظ جوں کے توں درج ہیں۔ اگر آج میں کسی غیر مسلم کوقرآن پر غوروفکر کرنے کے لیے کہوں تو اس کے جو سوالات ہونگے غالباً اس طرح کے ہونگے کہ کیا قرآن الہامی کتاب ہے؟ اس کا جواب قرآن آیات میں ہی مذکور ہے کہ جناب اگر یہ الہامی نہ ہوتا تو اس میں تضاد ہوتا۔ دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ کیا یہ قرآن جن لوگوں نے بھی ہم تک پہنچایا ہے کیا اسی حالت میں پہنچایا ہے جس میں نازل ہوا تھا۔ اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے، قرآن ہم تک لکھا ہوا بھی پہنچا ہے اور زبانی حفاظ کرام کے ذریعے ۔ کسی بھی طرح یہ ممکن ہی نہیں کہ اس میں کوئی ہیر پھیر کر سکے۔ لیکن پھر بھی ایک لمحے کےلیے یہ فرض کر لیا جائے کہ اس میں انسانوں نے کمی بیشی کی ہے تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اگر کسی انسان نے قرآن میں کچھ اضافہ کیا ہو گا تو اس میں بھی اختلاف آ گیا ہوگا ۔اگر اس میں اختلاف نہیں تو یہ کلام الٰہی ہے۔

بہت سے علماء کرام احادیث کو بھی وحی مانتے ہیں، مگر اس کا نام انہوں نے وحی غیر متلو یعنی جو وحی قرآن کی طرح تلاوت نہ کی جائے، اسی تناظر میں بہت سے دوست احادیث کی حقانیت کو ثابت کے لیے احادیث کا مقابلہ قرآن کریم سے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی  احادیث کی سند کے بارے میں سوال اٹھا دے تو پہلا جواب یہی ہوتا ہے کہ قرآن کریم بھی تو انہی لوگوں کی زبانی ہم تک پہنچا ہے۔ جناب والا قرآن اللہ تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے۔ اپنے اوپر کیے جانے والوں اعتراضات کا جواب قرآن کریم خود دیتا ہے۔اگر احادیث کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے آپ وہی الہامی معیار اپنانا چاہتے ہیں تو  آئیے اسی معیار کے مطابق احادیث کو دیکھتے ہیں۔قرآن کریم کے وحی اللہ یعنی الہامی ہونے کا   پہلا معیار یہ ہے کہ  قرآن کریم کی آیتوں میں اختلاف نہیں۔ کیا احادیث میں اختلاف ہے؟ بالکل ہے۔ کچھ لوگ احادیث کی روشنی میں ہی فروعی مسائل میں ضد کر کے مختلف فرقے بنا بیٹھے ہیں جو مختلف طریقوں سے نماز  پڑھتے ہیں۔ روزہ کھولنے کے اوقات مختلف ہیں اور اسی طرح سینکڑؤں فروعی مسائل ہیں۔ ان فروعی اختلافات کے بارے میں ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے ہر طریقے کے مطابق نماز پڑھی یا روزہ مختلف اوقات میں افطار کیا۔ تو ٹھیک ہے جناب اس بات کو  بالکل درست  مان لیتے ہیں، تو پھر اب امت کیوں ایک دوسرے کے طریقوں سے نماز نہیں پڑھتی؟ کیوں فروعی مسائل کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے؟
اعتقادی مسائل کو دیکھیں تو احادیث سے ہی ثابت کیا جاتا ہے کہ وفات پائے ہوئے لوگوں تک ایصال ثواب ایسے پہنچتا ہے جیسے آج کل ہم کسی کے نمبر پر ایزی لوڈ بھیج دیتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگوں کے مطابق وفات پانے والے اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہے، کسی کا کچھ پڑھنا اُن کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔  نبی کریم ﷺ نور تھے یا بشر، اس حوالے سے بھی مختلف احادیث کی بنیاد پر ہی فرقے  یا فرقوں میں فرقے بن چکے ہیں۔
اب دوسرے معیار کو دیکھتے ہیں جو قرآن کو الہامی بیان کرتا ہے کہ اگر یہ قرآن انسانی کلام ہے تو تم بھی ایسی ایک سورت لکھ لاؤ۔ اس معیار پر اگر احادیث کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ لاکھوں میں تعداد میں احادیث ایسی تھیں جو لوگوں نے خود سے بنائی تھیں، اس طرح کی تمام احادیث کو ،جن کے وضعی ہونے پر شک تھا انہیں، محدثین نے رد کر دیا۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ اُنہوں نے لاکھوں ایسی احادیث کو مسترد کیا۔  احادیث کی جو درجہ بندی کی گی  اس میں ایک درجہ وضعی یا ضعیف روایات کا رکھا گیا۔ اس میں وہ تمام احادیث بیان کی گئی جو  محدثین کے نزدیک لوگوں نے خود سے  گھڑی تھیں مگر اُن کو بھی کتابوں میں درج کر دیا گیا۔محدثین کرام نے اپنی انسانی سمجھ اور بصیرت کے مطابق احادیث کو پرکھا اور اپنی کتابوں میں درج کیا اور اپنی انسانی سمجھ کے مطابق ہی اُن کو مختلف درجہ بندیوں میں تقسیم کیا۔ محدثین انبیاء نہ تھے، اس لیے بعض لوگوں کو یہ احتمال رہتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جو احادیث رد کی گئیں ہو سکتا ہے اُن میں کوئی صحیح بھی ہو،  یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو احادیث لی گئی ہیں اُن میں کوئی غلط حدیث شامل نہ ہو گئی ہو۔
ایسے حالات میں ہم کس طرح احادیث کو قرآن کے بیان کیے گئے معیار کے مطابق بیان کر سکتے ہیں؟
ہمیں مختلف محدثین کی بیان کی گی احادیث کو ثابت کرنے کے لیے وہی معیار اپنانا چاہیے جو انہوں نے احادیث کو جمع کرنے کا بنایا تھا نہ کہ وہ معیار جو قرآن کریم کی حقانیت کا ہے۔ اگر آج مجھے قرآن کریم کا سلسلہ روایت معلوم نہ ہو تو اس سے قرآن کریم کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ قرآن کے الہامی ہونے کا معیار خود قرآن میں مذکور ہے، مگر حدیث کے سلسلہ روایت میں  ایک راوی نہ ملے تو علماء کے نزدیک وہ حدیث مشکوک ہو جاتی ہے۔
 اگر کوئی محدثین کے بیان کیے گئے معیار سے متفق نہیں تو وہ اپنا معیار بتائے کہ احادیث کے صحیح ہونے کا کیا معیار ہونا چاہیے؟ اس پر اگر کسی کا جواب ہو کہ وہ صرف ایسی احادیث کو درست تسلیم کرے گا جو قران کے مطابق ہونگی تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔جہاں محدثین کرام نے اپنے اپنے معیار اپنائے دوسروں کو بھی اپنا لینے دیجیے۔ ہاں اگر کوئی کہے کہ حدیث کی فلاں کتاب سے فلاں حدیث نکال دی جائے تو یہ علمی بددیانتی ہوگی۔ کسی کتاب سے مصنف کی مرضی کے بغیر  ایک فقرہ نکال دینے کے بعد وہ اس مصنف کی طرف تو منسوب نہیں کی جا سکتی۔اگر کوئی صحیح بخاری سے 50 احادیث نکال کر شائع کرتا ہے تو پھر صحیح بخاری کو امام بخاری ؒ کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی ، اسے احادیث نکالنے والے کی ترتیب و تدوین کہا جائے گا۔
اکثر ایسی صورتحال بھی پیش آتی ہے کہ اگرکوئی احادیث میں بیان کی گئی ایسی بات کا انکار کردیتا ہے جو اسے قرآنی آیات کے مطابق نہیں لگتی تو اس پر بغیر سوال کیے یہ کہہ کر  کافر  ہونے کا فتویٰ داغ دیا جاتا ہے کہ یہ  ہمارے علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو اس بات کا مخالف ہو کافر ہے۔ اللہ کے بندو، کسی کے کافر مسلمان ہونے کا فیصلہ قرآن کی روشنی میں ہونا چاہیے یا علماء کرام کی رائے شماری سے ؟ اگر کسی کے نزدیک قرآن سے ایک بات ثابت ہو جاتی ہے اور حدیث قرآنی آیت سے اختلاف کر رہی ہے تو اُس شخص سے کوئی سوال کیے بغیر صرف علماء کے کہنے پر کفر کا فتویٰ لگا دینا ،کیا  یہود کی طرح اپنے علماء کو اپنا معبود بنانا نہیں؟ آپ لوگ احادیث کی حقانیت کو ضرور ثابت کریں۔ پوری دنیا میں کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جو کہے کہ جو نبی کریم ﷺ نے کہا ہے وہ میں نہیں مانتا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ یہ بات قرآن کے مخالف ہے، نبی کریم ﷺ ایسی بات کہہ نہیں سکتے تھے تو اس پر کس خوشی میں منکر حدیث کا فتویَ ؟ اس مسئلے میں احسن حدیث یعنی قرآنی آیت، جو نبی کریم ﷺ کے الفاظ ہی ہیں، کو تو وہ مان رہا ہے۔ ظاہری طور پر تو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ کفر کا فتویٰ احادیث کا انکار کرنے پر نہیں، اپنے علماء کی بات سے اختلاف کرنے پر دیا گیا ہے۔
قرآن بالکل حق ہے۔ وہ تمام احادیث جو قرآنی احکامات کے مطابق ہوں وہ بھی درست ہیں، مگر قرآن کا اپنا معیار ہے اور حدیث کااپنا  معیار ہے۔ ایک الہامی  کلام ہے ، دوسرا انسانی۔ اس لیے انسانی کلام کو ثابت کرنے کے لیے الہامی کلام سے الزامی سوالات نہیں کرنے چاہیں، کیونکہ الہامی کلام کو ثابت کرنے کا معیار اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے، جس پر اگر انسانی کلام کو پرکھا جائے گا تو وہ کبھی بھی معیار پر پورا نہ اترے گا۔  
میں نے بہت سے دوستوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی  ، احادیث کے بارے میں مباحث کرتے ہوئے قرآن پر الزامی سوالات نہ کیے جائیں، مگر اُن دوستوںکا جواب ہوتا ہے کہ
” قرآن پر اعتراض کرنے کے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک تعمیری اور دوسرا تخریبی ۔
تعمیری کا مقصد جستجو یا کسی مخالف سے کوئی بات اگلوانا، اور تخریبی کا مقصد صرف اور صرف اعتراض در اعتراض القرآن الکریم میں عیب نکالنا ( نعوذ باللہ من ذلک )۔ اور الحمد للہ ثم الحمد للہ ہماری جانب سے اگر اعتراض کیا بھی گیا ہےتو ہمیشہ سے اول الذکر تعمیری اعتراض ہی کیا گیا ہے۔ “

مجھے اپنے محترم دوستوں کے تعمیری جذبے  پر کوئی شک نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی تعمیری کوششوں کو تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو عرض یہ ہے کہ سب مسلمانوں کو ہر طرح کی تعمیری اور اصلاحی کوششیں شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم انجانے میں ایسا  فساد تو نہیں پھیلا رہے جس کا ہم کو پتہ بھی نہ ہو(سورۃ البقرہ آیت 11، 12)۔ اب ہمارے وہ   دوست جو  قرآن پر الزامی سوالات سے تعمیری کوششیں کر رہے ہیں اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے یا انجانے میں مستشرقین کے اعتراضات کو ایسے لوگوں تک پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں جو پہلے ہی یہاں  غیرمسلموں اور دہریوں کے نرغے میں ہوتے ہیں۔ اور دہریے اُن دوستوں کے بیان کیے ہوئے اعتراضات کومسلمان بچوں کو بہکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔  ہمارے محترم دوست احادیث پر کیے گئے  اعتراضات کے جواب اس طرح دیتے ہیں کہ ،جو جواب قرآن پر عائد اس اعتراض کا ہے وہی جواب احادیث پر عائد اعتراضات کا ہو گا۔ اب یہ جواب کیا ہو گا؟ یہ محترم دوستوں نے کبھی بتانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ارے بھائی آپ لوگ اعتراض بتا رہے ہو تو جواب بھی تو بتاؤ۔ اسی فرقہ پرست رویے سے تنگ لوگ   قرآن پرایسے اعتراضات کے بارے میں جان لیتے ہیں جو اُن کو پہلے نہیں معلوم تھے۔اس سے لوگ احادیث پر اپنا ایمان کیا مضبوط کریں گے الٹا  قرآن سے بھی برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ اس تمام صورت حال  کے بعد  ہمارے محترم دوست کہتے ہیں کہ کسی  بھی حدیث کاانکار کرنے کی آخری منزل دہریت ہے۔  اسے دہریت تک پہنچانے میں مسلمان بھائیوں کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ہے ، جو کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ایسا کرنے میں اُن لوگوں کا بھی حصہ ہے جو اعتراضات تو کھل کر چھاپتے ہیں مگر جواب کو ہتھیار سمجھ کر چھپا کر رکھتے ہیں کہ بحث کے دوران سب سے آخر میں دیں گے۔
ہمارے محترم دوستوں کو چاہیے کہ اپنی تعمیری کوششیں بالکل جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور اس کا اجر دے گا۔ مگر ان کوششوں میں وہ جانے انجانے، مستشرقین کے بیان کیے ہوئے اعتراضات کاپی پیسٹ کر کے،  دہریت کے ہاتھ مضبوط نہ کریں۔ہدایت دینا نہ دینا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے مگر ہمیں اپنی کوششیں اس طرح جاری رکھنی چاہیے کہ کسی کو اسلام کے کسی گوشے پر اعتراض کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اگر کہیں الزامی سوال پیش کرنا پڑے تو فوراً ہی اس کا بہترین جواب بھی پیش کیا جائے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔

 (تحریر: 8 اگست 2014، ترمیم: 9 اپریل 2017)